Sunday, 7 December 2014

مذہب پسند کیا کریں ؟


اگر آپ مذہب پسند ہیں اور اسے اپنی زندگی میں نافذ العمل کرنا اپنا زندگی کا سب سے اہم فریضہ سمجھتے ہیں تو میری راۓ  میں آپ کو یہ مضمون ایک دفعہ ضرور پڑھنا چاہئیے 

میرے ذاتی مشاہدے میں یہ بات آی ہے کہ اکثر مذہب پسند لوگ کا مذہب کے متعلق ایک خاص نقطۂ نظر ہوتا ہے اور ہر وہ شخص جو اس خاص نقطۂ نظر سے مطابقت نہیں رکھتا ان کے نزدیک حق پر نہیں ہے. یعنی  دوسرے الفاظ میں ہم میں سے ہر ایک مذہب پسند شخص نیں اپنا ایک خاص دائرہ کھینچ رکھا ہے اور آپ اور ہم اس دائرہ کے ذرا بھی باہر ہیں تو آپ ان کی مذہب کی خاص تشریح پر پورے نہیں اترتے

میں بہت ڈھونڈھتا رہا کہ مجھے کوئی تو ایسا مذہبی گروہ ملے جو کی دوسرے کے نقطۂ نظر کو صحیح ہونے اتنا ہی موقعہ دے جتنا وہ خود کے نقطۂ نظر کو دیتا ہے . لیکن کہاں ، یہاں تو اختاف ے نقطۂ نظر آپ کو مذہب کے دائرے سے ہی باہر لے جاتا ہے.مزے کی بات یہ ہے کہ تمام نقطہ نظر دراصل پاک کلام کی تشریح ہے اور سب اختلاف کچھ الفاظ کی تشریح کا ہے. لیکن کیوں کے تشریح میں اختلاف بنیادی ہے اس وجہ سے مذہبی نقطۂ نظر میں اختلاف بھی بنیادی ہے

اگر آپ مذہب اسلام کی مثال سامنے رکھیں تو سب سے پہلے اختلاف اس نقطۂ پر ہے کہ مذہب اسلام کے قوانین کا ماخذ کیا ہے . کچھ کے نزدیک ماخذ قرآن اور نبی کی سنت ہے ، کچھ کے نزدیک قرآن اور حدیث ہے جب کے کچھ کے نزدیک قرآن اور قول امام ہے.اب قرآن خود ایک کتاب ہے جس کی تشریح کسی انسان کو کرنی ہے. اب جو بھی اس کی تشریح کرتا ہے چاہے وہ کس قدر بھی نیک کیوں نہ ہو غلطی کا احتمال ممکن ہے. اور خاص طور اس وقت جب ایک ہی آیات کی ایک سے زیادہ تشریحات جیّد صاحبان علم نیں کر رکھی ہوں

  اسی طرح جب آپ دوسرے ماخذ یعنی سنّت یا حدیث یا قول امام کے طرف آتے ہیں تو وہاں اختلاف اور بھی کھل کر سامنے آجاتا ہے کیوں کے اس کی تحقیق ترویج میں انسانی جزو کافی زیادہ ہے.جتنا انسانی فہم کا اس میں داخل ہوگا اس قدر ان میں اختلاف کی گنجائش ہوگی

اب اس صورت حال میں کسی کا یہ سمجھنا کہ وہ جس مذہب یا اس کی تشریح پر عمل کر رہا ہوں وہی حرف آخر ہے مجھے دراصل اس شخص کی دین کی بنیادی فہم سے نا  آشنائی کا پتا دیتی ہے

تو پھر اس پیچیدہ صورت حال میں ایک مذہب پسند شخص کو کیا کرنا چاہئیے؟ مرے خیال میں اسے الله نیں جو عقل دی ہے اس کو استمعال کرتے ہوۓ تمام موجود نقطۂ نظر میں سے جو صحیح لگے اس پر عمل کرنا چاہئیے اور دوسروں کو بھی یہی حق دینا چاہئیے 

Wednesday, 3 December 2014

بی بی عائشہ اور پاکستانی ملائیت



ابھی کچھ دن پہلے ایک ویڈیو میں ، مشھور  پاکستانی مبلغ جنید جمشید صاحب پیغمبر اسلام کی زوجہ حضرت بی بی عائشہ کے بارے اپنے ایک بیان میں کچھ باتیں کرتے دکھائی دیے ہیں . جب میں نیں یہ ویڈیو پہلی دفعہ دیکھی تو مجھے بھی کچھ عجیب سی لگی .عجیب کچھ اس طرح کے مجھے لگا کہ جنید جمشید صاحب جس طرح ، اور جس انداز میں بی بی کا ذکر رہے تھے عموماً  پاکستانی معاشرے میں مذہبی شخصیات کا ذکر ایسے ہوتا نہیں 

ویڈیو کا کیا آنا تھا سوشل میڈیا میں آگ کی طرح پھیل گی . کچھ دن بعد جنید جمشید صاحب کے استاد و رہبر ، اور تبلیغی جماعت کے سب سے بڑے مبلغ مولانا طارق جمیل صاحب کی ایک ویڈیو دیکھی گی جس میں وہ جنید جمشید کی ویڈیو کی نہ صرف مذمت کر رہے تھے بلکے اسے ایک جاہلانہ، توہین آمیز، اور دین سے خارج کرنے والا عمل قرار دے کر اس سے اپنی اور تبلیغی جماعت کی برات کا اعلان کر رہے تھے

بس اس کے بعد کیا تھا مخالف فرقے والے میدان میں کود پڑے . جنید جمشید صاحب کی مذمت اس کے خلاف اشتعال انگیز باتیں اور پر توہین رسالت کا الزام اور مقدمے کے مطالبہ شروع کر دیا. ساتھ ہی ساتھ جنید جمشید صاحب کی ایک  اور ویڈیو بھی جاری ہوئی جس میں اپنے کیے ہوۓ پر نادم ہوتے ہوۓ، روتے ہوۓ الله اور لوگوں سے معافی کے طلبگار دکھائی دیے

لیکن بات کہاں رکتی تھی ، بریلوی مولویوں نیں عدالت میں جا کر جنید جمشید پر توہین رسالت کے قانون کے تحت مقدمے کے اندراج کا فیصلہ لے لیا اور پولیس نیں مقدمہ درج کر دیا

دیوبندی مکتب فکر کے مولوی کہاں پیچھے رہنے والے تھےانھوں نہیں بھی جنید جمشید کے حق میں بیان و ویڈیو جاری کر دیےکہ اس سے غلطی ہوئی ہے وہ بھی نادانی میں اس نیں معافی مانگ لی ہے ، اسے معاف کر دینا چاہئیے الله بھی معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے

بریلویوں نیں جنید جمشید کی ویڈیو کا پوسٹ مارٹم شروع کردیا .ایک صاحب نیں ویڈیو میں پہلے تو جنید جمشید کو خوب سناییں پھر بی بی  عائشہ کی شان بیان کی ، ساتھ ہی ان پر لگنے والے الزامات اور ان کی تاریخ بیان کی . ساتھ میں یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جنید جمشید کے الزامات انہی پرانے الزامات کا تسلسل ہیں 

دیوبندی علماء  نیں جب یہ دیکھا تو وہ بریلویوں کے امام احمد رضا بریلوی کی بی بی عائشہ کے بارے میں کی ہوئی شاعری  سامنے لے آیے . جس کا بیان مجھ گنہگار کی جرات نہیں ہے 

جنگ ابھی جاری ہے اور ہر فریق ایک  دوسرے پر تابڑ توڑ  حملے کر رہا ہے . کچھ اہل تشع بھی ڈکھے  چھپے انداز میں  بخاری شریف میں بی بی عائشہ کے بارے میں لکھی ہوئی حدیثیں جن کی وہ خود راوی ہیں شئیر کر کے اپنی تسکین طبع  کر رہے ہیں 

دکھ یہ ہے کہ چونکے آج کل ملک میں مذہب خوب بک رہا ہے تو مذہبی ٹھیکیداروں کے معاشی مفادات کے آپس کے ٹکراؤ میں بی بی عائشہ مفت میں "پنچنگ بیگ" بنی ہوئی ہیں ہر کوئی ان کے حرمت اور توہین رسالت کی آڑ  میں اپنے بدلے لے رہا تھا
خدا بی بی کو پندھرویں صدی کے ملاؤں کے فتنے سے بچاۓ 
آمین