Friday, 30 July 2010
درود تاج
O Allah, send blessings and Peace upon our Master and Patron Muhammad, The Owner of the Crown and the Ascent and the Buraq and the Standard, The Repeller of Affliction and Disease and Drought and Illness and Pain. His name is written on hig...h, served and engraved in the Tablet and the Pen, The Leader of All, Arabs and non-Arabs, Whose body is sanctified, fragrant, and pure, Illumined in the House and the Haram, The Sun of Brightness, the Full Moon in Darkness, The Foremost One in the Highest Fields, the Light of Guidance, The Cave of Refuge for Mortals, the Lamp That Dispels the Night, The Best-Natured One, The Intercessor of Nations, The Owner of Munificence and Generosity. Allah is his Protector, Gabriel is his servant. The Buraq is his mount, the Ascent is his voyage, The Lote-Tree of the Furthermost Boundary is his station, Two Bow-Lengths or Nearer is his desire, His desire is his goal, and he has found his goal, The Master of the Messengers, the Seal of the Prophets, The intercessor of sinners, the friend of the strangers, The Mercy for the Worlds, The rest of those who burn with love, the goal of those who yearn, The sun of knowers, the lamp of travellers, The light of Those Brought Near, The friend of the poor and destitute, The master of Humans and Jinn, The Prophet of the Two Sanctuaries, The Imam of the Two Qiblas, Our Means in the Two Abodes, The Owner of Qaba Qawsayn, The Beloved of the Lord of the Two Easts and the Two Wests, The grandfather of al-Hasan and al-Husayn, Our patron and the patron of Humans and Jinn: Abu al-Qasim MUHAMMAD Son of `Abd Allah, A light from the light of Allah. O you who yearn for the light of his beauty, Send blessings and utmost greetings of peace Upon him and upon his Family.
See more
Wednesday, 21 July 2010
ویلکم ٹو طالبانائزیشن ان کورٹ روم نمبر ون۔
ویلکم ٹو کورٹ نمبر ون!
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
چیف جسٹس آف پاکستان
منگل بیس جولائی کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے فل بنچ کے سترہ ججوں کے سامنے وہ بھی ہوگیا جو ایک دن ہونا ہی تھا۔اٹھارویں ترمیم کو چیلنج کرنے والے ایک صحافی درخواست گزار نے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں آئینِ پاکستان کی کاپی پکڑ کر ڈرامائی انداز میں کہا
’اگر میں ڈوب رہا ہوں اور کوئی مجھے کہے کہ اس میں سے ایک پھینک دو تو میں یہ کروں گا‘ ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے صحافی شاہد اورکزئی نے آئینِ پاکستان کی کتاب فرش پر اچھال دی۔ پوری عدالت سکتے میں آگئی اور چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد ایک جج جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ توہینِ عدالت پر معافی مانگیں ورنہ آپ کے خلاف کاروائی ہوگی۔چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ ججوں نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ لہذا یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے آپ فوراً معافی مانگئے۔ جسٹس غلام ربانی نے کہا آپ کو جرات کیسے ہوئی بھری عدالت میں آئین کی کتاب پھینکنے کی۔ شاہد اورکزئی نے کہا کہ میں صرف قرآن پاک سے اپنی وابستگی کا اظہار کررہا تھا۔اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔
جب عدالت آدھے گھنٹے کی برخواستگی کے بعد دوبارہ لگی تو درخواست گزار نے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک پرچہ عدالت میں پیش کردیا۔اور باہر آکر کہا کہ انہوں نے اس پرچے میں صرف خود کو سننے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
یہ ایسا ڈرامہ تھا کہ ججوں سمیت کسی کا دھیان اس بات پر ہی نہیں گیا کہ پھینکے جانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی کتاب میں بھی اللہ کا نام موجود ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ قرآن کے نام پر آئین کی بے عزتی ہوئی ہو۔ دو برس پہلے مولانا صوفی محمد نے بھی برملا کہا تھا کہ وہ نہ تو آئینِ پاکستان کو مانتے ہیں اور نہ اس کے تحت کام کرنے والی پارلیمنٹ کو اور نہ ہی عدلیہ کو۔ یہ سب ڈھانچے غیر اسلامی ہیں۔ قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔
مولانا صوفی محمد سے بھی پہلے جنرل محمد ضیا الحق نے قران و سنت کا نظام نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آئین کیا ہے؟ بارہ صفحے کی کتاب؟ جب چاہے پھاڑ دوں! اور پھر جنرل صاحب نے زنجیر بدست عدلیہ کی موجودگی میں معنوی طور پر آئین پھاڑ ڈالا۔
اور ضیا الحق سے بھی ساڑھے تیرہ سو برس پہلے جنگِ صفین میں حضرت علی کے لشکر کے خلاف صف آرا اموی لشکر نے جب اپنے قدم اکھڑتے محسوس کئے تو نیزوں پر قرآن بلند کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ اب اس کے ذریعے ہوگا۔ اس کے بعد کیا فیصلہ و فساد ہوا ۔یہ تاریخ پڑھنے والا عام آدمی بھی جانتا ہے۔
جب کوئی بھی شخص یا گروہ دلائل کی جنگ ہارنے لگے تو قرآن بیچ میں لے آئے۔ سب پیچھے ہٹ جائیں گے۔ کسی میں یہ پوچھنے کی جرات نہیں ہوسکتی کہ خود اس شخص کا عمل قرآن کے کتنا تابع ہے اور آس پاس کے لوگ اس شخص کی شہرت کے بارے میں کیا تاثر رکھتے ہیں۔
قرآن بیچ میں لانے والے شخص کے ذاتی کردار کی پرکھ تو خیر بہت دور کی بات ہے۔یہاں تو صرف اتنی افواہ بھی کافی ہے کہ فلاں شخص نے قرآن کی براہ راست یا استعاراً بے حرمتی کی ہے۔ لاشیں گرنے کے بعد تحقیق ہوتی ہے کہ اصل معاملہ کیا تھا۔
ان حالات میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے بھرے کمرے میں ایک درخواست گزار کے ڈرامے کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لے کر فراست کا ثبوت دیا۔ عدالت رہے گی تو انصاف بھی دے گی۔عدالت ہی نہ رہی تو۔۔۔۔
درخواست گزار بھی یہ نازک راز بخوبی جانتا تھا اسی لیے تو اس نے کمرہ عدالت سے باہر آکر سینہ تانتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ معافی وافی نہیں مانگی بس تحریری طور پر عدالت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
کس مائی کے لال میں جرات ہے کچھ کہنے کی۔ ویلکم ٹو طالبانائزیشن ان کورٹ روم نمبر ون۔
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
چیف جسٹس آف پاکستان
منگل بیس جولائی کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے فل بنچ کے سترہ ججوں کے سامنے وہ بھی ہوگیا جو ایک دن ہونا ہی تھا۔اٹھارویں ترمیم کو چیلنج کرنے والے ایک صحافی درخواست گزار نے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں آئینِ پاکستان کی کاپی پکڑ کر ڈرامائی انداز میں کہا
’اگر میں ڈوب رہا ہوں اور کوئی مجھے کہے کہ اس میں سے ایک پھینک دو تو میں یہ کروں گا‘ ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے صحافی شاہد اورکزئی نے آئینِ پاکستان کی کتاب فرش پر اچھال دی۔ پوری عدالت سکتے میں آگئی اور چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد ایک جج جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ توہینِ عدالت پر معافی مانگیں ورنہ آپ کے خلاف کاروائی ہوگی۔چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ ججوں نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ لہذا یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے آپ فوراً معافی مانگئے۔ جسٹس غلام ربانی نے کہا آپ کو جرات کیسے ہوئی بھری عدالت میں آئین کی کتاب پھینکنے کی۔ شاہد اورکزئی نے کہا کہ میں صرف قرآن پاک سے اپنی وابستگی کا اظہار کررہا تھا۔اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔
جب عدالت آدھے گھنٹے کی برخواستگی کے بعد دوبارہ لگی تو درخواست گزار نے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک پرچہ عدالت میں پیش کردیا۔اور باہر آکر کہا کہ انہوں نے اس پرچے میں صرف خود کو سننے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
یہ ایسا ڈرامہ تھا کہ ججوں سمیت کسی کا دھیان اس بات پر ہی نہیں گیا کہ پھینکے جانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی کتاب میں بھی اللہ کا نام موجود ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ قرآن کے نام پر آئین کی بے عزتی ہوئی ہو۔ دو برس پہلے مولانا صوفی محمد نے بھی برملا کہا تھا کہ وہ نہ تو آئینِ پاکستان کو مانتے ہیں اور نہ اس کے تحت کام کرنے والی پارلیمنٹ کو اور نہ ہی عدلیہ کو۔ یہ سب ڈھانچے غیر اسلامی ہیں۔ قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔
مولانا صوفی محمد سے بھی پہلے جنرل محمد ضیا الحق نے قران و سنت کا نظام نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آئین کیا ہے؟ بارہ صفحے کی کتاب؟ جب چاہے پھاڑ دوں! اور پھر جنرل صاحب نے زنجیر بدست عدلیہ کی موجودگی میں معنوی طور پر آئین پھاڑ ڈالا۔
اور ضیا الحق سے بھی ساڑھے تیرہ سو برس پہلے جنگِ صفین میں حضرت علی کے لشکر کے خلاف صف آرا اموی لشکر نے جب اپنے قدم اکھڑتے محسوس کئے تو نیزوں پر قرآن بلند کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ اب اس کے ذریعے ہوگا۔ اس کے بعد کیا فیصلہ و فساد ہوا ۔یہ تاریخ پڑھنے والا عام آدمی بھی جانتا ہے۔
جب کوئی بھی شخص یا گروہ دلائل کی جنگ ہارنے لگے تو قرآن بیچ میں لے آئے۔ سب پیچھے ہٹ جائیں گے۔ کسی میں یہ پوچھنے کی جرات نہیں ہوسکتی کہ خود اس شخص کا عمل قرآن کے کتنا تابع ہے اور آس پاس کے لوگ اس شخص کی شہرت کے بارے میں کیا تاثر رکھتے ہیں۔
قرآن بیچ میں لانے والے شخص کے ذاتی کردار کی پرکھ تو خیر بہت دور کی بات ہے۔یہاں تو صرف اتنی افواہ بھی کافی ہے کہ فلاں شخص نے قرآن کی براہ راست یا استعاراً بے حرمتی کی ہے۔ لاشیں گرنے کے بعد تحقیق ہوتی ہے کہ اصل معاملہ کیا تھا۔
ان حالات میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے بھرے کمرے میں ایک درخواست گزار کے ڈرامے کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لے کر فراست کا ثبوت دیا۔ عدالت رہے گی تو انصاف بھی دے گی۔عدالت ہی نہ رہی تو۔۔۔۔
درخواست گزار بھی یہ نازک راز بخوبی جانتا تھا اسی لیے تو اس نے کمرہ عدالت سے باہر آکر سینہ تانتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ معافی وافی نہیں مانگی بس تحریری طور پر عدالت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
کس مائی کے لال میں جرات ہے کچھ کہنے کی۔ ویلکم ٹو طالبانائزیشن ان کورٹ روم نمبر ون۔
Saturday, 17 July 2010
Thursday, 15 July 2010
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
ایک سے کرتا نہیں کیوں دوسرا کچھ بات چیت
دیکھتا ھوں میں جسے وہ چپ تیری محفل میں ہے
اے شہید ملک و ملت میں تیرے اوپر نثار
اب تیری ہمت کا چرچہ غیر کی محفل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
وقت آنے دے بتا دیں گے تجہے اے آسمان
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
کھینج کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی امید
عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچئہ قاتل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہے لئے ہتھیار دشمن تاک میں بیٹھا ادھر
اور ہم تیار ھیں سینہ لئے اپنا ادھر
خون سے کھیلیں گے ہولی گر وطن مشکل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہاتھ جن میں ہو جنون کٹتے نہیں تلوار سے
سر جو اٹھ جاتے ہیں وہ جھکتے نہیں للکا ر سے
اور بھڑکے گا جو شعلہ سا ہمارے دل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہم جو گھر سے نکلے ہی تھے باندہ کے سر پہ کفن
جان ہتھیلی پر لئے لو، لے چلے ہیں یہ قدم
زندگی تو اپنی مہمان موت کی محفل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
یوں کھڑا مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار
کیا تمناِ شہادت بھی کِسی کے دِل میں ہے
دل میں طوفانوں کی تولی اور نسوں میں انقلاب
ھوش دشمن کے اڑا دیں گے ھمیں روکو نہ آج
دور رہ پائے جو ہم سے دم کہاں منزل میں ہے
وہ جِسم بھی کیا جِسم ہے جس میں نہ ہو خونِ جنون
طوفانوں سے کیا لڑے جو کشتیِ ساحل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
ایک سے کرتا نہیں کیوں دوسرا کچھ بات چیت
دیکھتا ھوں میں جسے وہ چپ تیری محفل میں ہے
اے شہید ملک و ملت میں تیرے اوپر نثار
اب تیری ہمت کا چرچہ غیر کی محفل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
وقت آنے دے بتا دیں گے تجہے اے آسمان
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
کھینج کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی امید
عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچئہ قاتل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہے لئے ہتھیار دشمن تاک میں بیٹھا ادھر
اور ہم تیار ھیں سینہ لئے اپنا ادھر
خون سے کھیلیں گے ہولی گر وطن مشکل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہاتھ جن میں ہو جنون کٹتے نہیں تلوار سے
سر جو اٹھ جاتے ہیں وہ جھکتے نہیں للکا ر سے
اور بھڑکے گا جو شعلہ سا ہمارے دل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہم جو گھر سے نکلے ہی تھے باندہ کے سر پہ کفن
جان ہتھیلی پر لئے لو، لے چلے ہیں یہ قدم
زندگی تو اپنی مہمان موت کی محفل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
یوں کھڑا مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار
کیا تمناِ شہادت بھی کِسی کے دِل میں ہے
دل میں طوفانوں کی تولی اور نسوں میں انقلاب
ھوش دشمن کے اڑا دیں گے ھمیں روکو نہ آج
دور رہ پائے جو ہم سے دم کہاں منزل میں ہے
وہ جِسم بھی کیا جِسم ہے جس میں نہ ہو خونِ جنون
طوفانوں سے کیا لڑے جو کشتیِ ساحل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
Sunday, 4 July 2010
"No Muslim can do this"
Attack on Data Darbar is a continuation of the same events in which Pakistanies are under attack by the few ‘Faithfuls’. Its not an event in isolation and its not a solitary attack on Braylvies. Its essentially the same wave of attacks [based on religious hatred] in which Christians, Hindues, Shiites and Ahmedies were targeted in the past. After the attack, watching the so called ‘Azad Media’, I noted a theme, which was recurrent with slight change of words. ‘no muslim can do this’, ‘this is not done by any Muslim’, ‘how a Muslim can think of doing such a horrific event’, ‘those who did this are not Muslims’. I ask a question from myself are they really not Muslims or are we just in a state of mind, called denial? Are we trying to find out the excuses to blame ’some one else’ but Muslims?
Muslims have been involved in killing of other Muslims for centuries on religious grounds. If we analyse the history, 3 out of the 4 of our pious Caliphs were killed by the people who claim to be Muslims. Prophet’s Household [peace be upon them] were slaughtered in Karballa by their fellow Muslims. Not just slaughtered but mutilated,their dead bodies chopped into pieces and were not allowed to be buried properly. During the Caliphate we killed each others without hesitations, when ever needed to be. In recent past we can remember the events of Mazar-e-Sharif when Talibans [Muslims] captured it, they killed 15000 Shiites and then didn’t allowed their dead bodies to be buried rather let it rotten so that dogs and other animals can eat them. This was an exhibit of their religious hatred against Shiites. Our brave [Muslim] Army is alleged to kill hundreds of thousands of poor Bengalies. Most of you will remember the picture of dead body of Najibullah hanging from a traffic signal[shown above] , castrated and his penis put in his mouth. This was done in the name of Islam, as is evident from the statement by the Taliban official “He killed so many Islamic people and was against Islam and his crimes were so obvious that it had to happen. He was a communist…”.
In 1990s Shiites were killed , their Majalises were bombed, their intellectuals and community leaders were targeted, by whom, our Sunni brothers. They, not just taken responsibility of it, but also took pride in it and did it as their religious duty. I feel sorry for those so-called analysts and politicians who think that all this started post 9/11. Christians and Hindues were persecuted and our ‘faithful brothers’ were involved in it. It was ‘Mullah Radio’ who was on killing spree in Swat and it was ‘Mohtaram’ Sufi Mohammad and his fellows who dugged out the dead body of Pir Sami Ullah of Swat, that was mutilated and then hanged on a crossroad. Those were our ‘faithful brothers’ who attacked and bombed the mazar of Rehman Baba. Those were our ‘faithful brothers’ who attacked Ahmdies in Lahore. PML N Govt still holds one of them but doesn’t want the pubic to know that, he is our own home grown ‘Muslim brother’ trained in a madrissa and inspired by some so-called scholars.
Most of the above mentioned events were/are driven by the religious hatred. This hatred is still being taught, preached and propagated in most madrissas in Pakistan. This hate is also being propagated day in, day out on TV, radio and newspapers. When we allow teachings like ‘Ahmedies are murtid hence wajib Ul qatl’, ‘Shiites are blasphemous to Sahabah hence wajib ul qatl’, ‘Braylvies are mushriq, Shirq is the worst crime of all, Data Darbar is the hub of ‘Shirq’ hence Braylvies are wajib ul qatl’, ‘Christians and Hindues are blasphemous to the Prophet Muhammad hence wajib ul qatl’, then what we are seeing is a logical consequence. Most of us were and are silent on the propagation of this hatred just because it was not against us. Muslims remained silent when Hindues are Christians were targeted by the barbarics. Braylvies and Ahmedies remained silent when Shiites were under attack. Shiites and Braylvies remained silent when Ahmedies were slaughtered. Now its the turn of Brayvlies and others are somewhat silent or just giving verbal condemnations. As long as we come out and speak against this hatred,which is the root cause of it, we all are in it and sooner or later we will be attacked.
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا ——- خاموشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
-by Dr Khawaja Muhammad Awais Khalil
Saturday, 3 July 2010
- بریلوی دیوبندی تاریخ
بریلوی دیوبندی تاریخ اور اختلافات
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ڈاکٹر مبارک علی
ڈاکٹر مبارک علی کی رائے ہے کہ سعودی عرب کا دیوبند مسلک کے فروغ میں اہم کردار رہا ہے۔
برصغیر میں بریلوی اور دیوبند مسالک میں اختلافات کا سلسلہ تو کئی دہائی پرانا ہے مگر ان میں شدت پاکستان کے قیام کے بعد دیکھی گئی ہے۔
دونوں مسالک کی بنیاد ہندوستان میں پڑی یعنی دیوبند اور رائے بریلی میں۔
تاریخی مطالعے کے مطابق بریلوی مسلک کے لوگوں نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد سے انکار کیا اور آج بھی اس کو جاری رکھا ہوا ہے۔
نامور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے دس سال بعد دیوبند مدرسہ کا قیام عمل میں آیا، جس کا یہ مقصد تھا کہ چونکہ اب مغلوں کی حکومت نہیں رہی لہذا یہاں مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا جائے اور اپنی علیحدہ شناخت کو برقرار رکھا جائے۔
’یہ احیائے اسلام کے حامی لوگ تھے، جن کا خیال تھا کہ اسلام میں کافی رسومات داخل ہوگئی ہیں جنہیں نکال کر خالص اسلامی رسومات اور تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ دیوبند کے اس نظریے نے بڑی مقبولیت حاصل کی اور نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر مسلم ممالک سے بھی یہاں طالب علم آنے لگے تھے۔‘
ڈاکٹر مبارک علی بتاتے ہیں کہ بریلوی فرقہ بہت بعد میں سامنے آیا۔ ’احمد رضا خان بریلوی جو رائے بریلی سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے انیس سو بیس کے قریب یہ مکتبہ فکر قائم کیا، جن کا یہ موقف تھا کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے بہت ساری رسومات چونکہ مسلمانوں نے اختیار کرلی ہیں لہذا اب انہیں نکالنا نہیں چاہیے۔ ان رسومات میں مزاروں کی زیارت، منتیں ماننا، نذرو نیاز، فاتحہ خوانی، اور موسیقی شامل تھیں جنہیں دیوبندی نہیں مانتے تھے۔‘
بقول ڈاکٹر مبارک علی کے اس وقت دیوبند مسلک کے لوگوں کا تعلق دیہات اور نچلے طبقے سے تھا جبکہ بریلوی مسلک کے لوگ شہروں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
برصغیر کی تاریخ اور مذہبی علما کے سیاسی کردار کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ دیوبندی اور بریلوی ایک دوسرے سے ضرور شدید اختلافات رکھتے تھے مگر انگریزوں کے دور حکومت میں قتل و غارت یا اس بنیاد پر ایک دوسرے کو جان سے مارنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ’یہ شدت پسندی پاکستان بننے کے کئی سال بعد آئی ہے جس میں اب اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ورنہ انگریزوں کے دور میں یہ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے بھی دیتے تھے، ایک دوسری مساجد میں نہیں جاتے یا ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے۔‘
ڈاکٹر مبارک علی کا خیال ہے کہ علاقائی پس منظر بھی اس بارے میں اہمیت رکھتا ہے، ان کے مطابق پاکستان میں خیبر پختون خواہ میں کافی لوگ دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے ہیں یہاں کے لوگ مدرسوں میں پڑھنے جایا کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے اسی طرز کے مدرسے یہاں بھی تعمیر کیے۔
’یہ پہاڑی اور خشک علاقہ ہے ان کی زندگی میں رنگینی زیادہ نہیں اس لیے انہیں دیوبند نظریہ فکر زیادہ پسند آیا۔ اس کے برعکس بریلوی مسلک میں زندگی کے آثار ہیں۔ وہ نعت خوانی بھی کرتے ہیں ہر تہوار پر خصوصی کھانا پکاتے ہیں اور عرس منایا جاتا ہے۔ دیوبندیوں میں کلچرل پہلو بلکل بھی نہیں اور نہ کوئی رنگینی ہے۔ اس وجہ سے بریلویوں میں ذہنی لحاظ سے زیادہ وسعت ہے جبکہ دیوبند زیادہ تنگ نظر ہیں۔‘
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق تحریک جہاد جو تحریک محمدیہ بھی کہلاتی ہے کے بانی سید احمد شہید جب حج کرنے سعودی عرب گئے تھے تو وہاں وہ بھی وہابی تحریک سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے سرحد میں اسلامی حکومت قائم کرنے بھی کوشش کی تھی وہ بھی وھابی نقطہ نظر کے حامی تھی اور کسی بھی رسم کو نہیں مانتے تھے ان کا علاقے میں کافی اثر رسوخ تھا اور لوگ ان سے متاثر تھے۔
دیگر کئی دانشوروں اور مصنفوں کی طرح ڈاکٹر مبارک علی کی بھی رائے ہے کہ سعودی عرب کا دیوبند مسلک کے فروغ میں اہم کردار رہا ہے۔ بقول ان کے انیس سو ستر کی دہائی میں جب سعودی عرب میں تیل کی پیداوار کے بعد دولت کی ریل پیل ہوئی تو وھابی اسلام پاکستان میں شدت کے ساتھ آیا ہے۔
’بریلیوں کو باہر سے کوئی سرپرستی نہیں ملی۔ اس کے برعکس دیوبندیوں اور وھابیوں کو سعودی سرپرستی ملی۔ ان کے مدرسوں اور علما کے پاس پیسہ اور اس کے ساتھ ان کی اہلحدیث تحریک کی بہت زیادہ سرپرستی ہوئی، جس سے دیوبندی مالی اور سیاسی لحاظ سے زیادہ طاقتور بن کر ابھرے اس مقابلے میں بریلوی تحریک سرپرستی نے ملنے کی وجہ سے طاقتور نہیں ہوسکی۔‘
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق افغان جہاد کی بھی دیوبندیوں نے حمایت کی اور حصہ لیا مگر بریلویوں نے اس کی حمایت نہیں کی۔
جب متحدہ ہندوستان میں یہ مسئلہ اٹھا تھا کہ ہندوستان کو دارالحرب کہنا چاہیے یا دارالاسلام تو بریلوی اس بات کے حامی تھے کہ چونکہ یہاں انہیں مذہبی آزادی ہے لہذا ہندوستان دارالحرب نہیں ہیں۔ اس لیے نہ تو یہاں سے ہجرت کرنا چاہیے اور نہ ہی انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔ موجودہ وقت بھی بریلوی کسی جہادی تحریک میں شامل نہیں۔
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ڈاکٹر مبارک علی
ڈاکٹر مبارک علی کی رائے ہے کہ سعودی عرب کا دیوبند مسلک کے فروغ میں اہم کردار رہا ہے۔
برصغیر میں بریلوی اور دیوبند مسالک میں اختلافات کا سلسلہ تو کئی دہائی پرانا ہے مگر ان میں شدت پاکستان کے قیام کے بعد دیکھی گئی ہے۔
دونوں مسالک کی بنیاد ہندوستان میں پڑی یعنی دیوبند اور رائے بریلی میں۔
تاریخی مطالعے کے مطابق بریلوی مسلک کے لوگوں نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد سے انکار کیا اور آج بھی اس کو جاری رکھا ہوا ہے۔
نامور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے دس سال بعد دیوبند مدرسہ کا قیام عمل میں آیا، جس کا یہ مقصد تھا کہ چونکہ اب مغلوں کی حکومت نہیں رہی لہذا یہاں مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا جائے اور اپنی علیحدہ شناخت کو برقرار رکھا جائے۔
’یہ احیائے اسلام کے حامی لوگ تھے، جن کا خیال تھا کہ اسلام میں کافی رسومات داخل ہوگئی ہیں جنہیں نکال کر خالص اسلامی رسومات اور تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ دیوبند کے اس نظریے نے بڑی مقبولیت حاصل کی اور نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر مسلم ممالک سے بھی یہاں طالب علم آنے لگے تھے۔‘
ڈاکٹر مبارک علی بتاتے ہیں کہ بریلوی فرقہ بہت بعد میں سامنے آیا۔ ’احمد رضا خان بریلوی جو رائے بریلی سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے انیس سو بیس کے قریب یہ مکتبہ فکر قائم کیا، جن کا یہ موقف تھا کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے بہت ساری رسومات چونکہ مسلمانوں نے اختیار کرلی ہیں لہذا اب انہیں نکالنا نہیں چاہیے۔ ان رسومات میں مزاروں کی زیارت، منتیں ماننا، نذرو نیاز، فاتحہ خوانی، اور موسیقی شامل تھیں جنہیں دیوبندی نہیں مانتے تھے۔‘
بقول ڈاکٹر مبارک علی کے اس وقت دیوبند مسلک کے لوگوں کا تعلق دیہات اور نچلے طبقے سے تھا جبکہ بریلوی مسلک کے لوگ شہروں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
برصغیر کی تاریخ اور مذہبی علما کے سیاسی کردار کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ دیوبندی اور بریلوی ایک دوسرے سے ضرور شدید اختلافات رکھتے تھے مگر انگریزوں کے دور حکومت میں قتل و غارت یا اس بنیاد پر ایک دوسرے کو جان سے مارنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ’یہ شدت پسندی پاکستان بننے کے کئی سال بعد آئی ہے جس میں اب اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ورنہ انگریزوں کے دور میں یہ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے بھی دیتے تھے، ایک دوسری مساجد میں نہیں جاتے یا ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے۔‘
ڈاکٹر مبارک علی کا خیال ہے کہ علاقائی پس منظر بھی اس بارے میں اہمیت رکھتا ہے، ان کے مطابق پاکستان میں خیبر پختون خواہ میں کافی لوگ دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے ہیں یہاں کے لوگ مدرسوں میں پڑھنے جایا کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے اسی طرز کے مدرسے یہاں بھی تعمیر کیے۔
’یہ پہاڑی اور خشک علاقہ ہے ان کی زندگی میں رنگینی زیادہ نہیں اس لیے انہیں دیوبند نظریہ فکر زیادہ پسند آیا۔ اس کے برعکس بریلوی مسلک میں زندگی کے آثار ہیں۔ وہ نعت خوانی بھی کرتے ہیں ہر تہوار پر خصوصی کھانا پکاتے ہیں اور عرس منایا جاتا ہے۔ دیوبندیوں میں کلچرل پہلو بلکل بھی نہیں اور نہ کوئی رنگینی ہے۔ اس وجہ سے بریلویوں میں ذہنی لحاظ سے زیادہ وسعت ہے جبکہ دیوبند زیادہ تنگ نظر ہیں۔‘
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق تحریک جہاد جو تحریک محمدیہ بھی کہلاتی ہے کے بانی سید احمد شہید جب حج کرنے سعودی عرب گئے تھے تو وہاں وہ بھی وہابی تحریک سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے سرحد میں اسلامی حکومت قائم کرنے بھی کوشش کی تھی وہ بھی وھابی نقطہ نظر کے حامی تھی اور کسی بھی رسم کو نہیں مانتے تھے ان کا علاقے میں کافی اثر رسوخ تھا اور لوگ ان سے متاثر تھے۔
دیگر کئی دانشوروں اور مصنفوں کی طرح ڈاکٹر مبارک علی کی بھی رائے ہے کہ سعودی عرب کا دیوبند مسلک کے فروغ میں اہم کردار رہا ہے۔ بقول ان کے انیس سو ستر کی دہائی میں جب سعودی عرب میں تیل کی پیداوار کے بعد دولت کی ریل پیل ہوئی تو وھابی اسلام پاکستان میں شدت کے ساتھ آیا ہے۔
’بریلیوں کو باہر سے کوئی سرپرستی نہیں ملی۔ اس کے برعکس دیوبندیوں اور وھابیوں کو سعودی سرپرستی ملی۔ ان کے مدرسوں اور علما کے پاس پیسہ اور اس کے ساتھ ان کی اہلحدیث تحریک کی بہت زیادہ سرپرستی ہوئی، جس سے دیوبندی مالی اور سیاسی لحاظ سے زیادہ طاقتور بن کر ابھرے اس مقابلے میں بریلوی تحریک سرپرستی نے ملنے کی وجہ سے طاقتور نہیں ہوسکی۔‘
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق افغان جہاد کی بھی دیوبندیوں نے حمایت کی اور حصہ لیا مگر بریلویوں نے اس کی حمایت نہیں کی۔
جب متحدہ ہندوستان میں یہ مسئلہ اٹھا تھا کہ ہندوستان کو دارالحرب کہنا چاہیے یا دارالاسلام تو بریلوی اس بات کے حامی تھے کہ چونکہ یہاں انہیں مذہبی آزادی ہے لہذا ہندوستان دارالحرب نہیں ہیں۔ اس لیے نہ تو یہاں سے ہجرت کرنا چاہیے اور نہ ہی انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔ موجودہ وقت بھی بریلوی کسی جہادی تحریک میں شامل نہیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
-
زے حال مسکین مَکُن برنجش ، بہ حال ے ہجراں بیچارہ دل ہے [مسکین کے حال پر ، رنجش نا کر ، ہجراں کی وجہ سے بچارا دل ہے ] سنائی دیتی ہے جس کی دھ...
-
تم حیا - و -شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو ہم نے ننگے جسموں کو ملبو س -ے -حیا دیکھا ہے ہم نے دیکھے ہیں احرام میں لپٹے کئی ابلیس ...