Wednesday, 21 July 2010

ویلکم ٹو طالبانائزیشن ان کورٹ روم نمبر ون۔

ویلکم ٹو کورٹ نمبر ون!

وسعت اللہ خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

چیف جسٹس آف پاکستان

منگل بیس جولائی کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے فل بنچ کے سترہ ججوں کے سامنے وہ بھی ہوگیا جو ایک دن ہونا ہی تھا۔اٹھارویں ترمیم کو چیلنج کرنے والے ایک صحافی درخواست گزار نے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں آئینِ پاکستان کی کاپی پکڑ کر ڈرامائی انداز میں کہا

’اگر میں ڈوب رہا ہوں اور کوئی مجھے کہے کہ اس میں سے ایک پھینک دو تو میں یہ کروں گا‘ ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے صحافی شاہد اورکزئی نے آئینِ پاکستان کی کتاب فرش پر اچھال دی۔ پوری عدالت سکتے میں آگئی اور چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد ایک جج جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ توہینِ عدالت پر معافی مانگیں ورنہ آپ کے خلاف کاروائی ہوگی۔چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ ججوں نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ لہذا یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے آپ فوراً معافی مانگئے۔ جسٹس غلام ربانی نے کہا آپ کو جرات کیسے ہوئی بھری عدالت میں آئین کی کتاب پھینکنے کی۔ شاہد اورکزئی نے کہا کہ میں صرف قرآن پاک سے اپنی وابستگی کا اظہار کررہا تھا۔اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔

جب عدالت آدھے گھنٹے کی برخواستگی کے بعد دوبارہ لگی تو درخواست گزار نے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک پرچہ عدالت میں پیش کردیا۔اور باہر آکر کہا کہ انہوں نے اس پرچے میں صرف خود کو سننے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا ہے۔

یہ ایسا ڈرامہ تھا کہ ججوں سمیت کسی کا دھیان اس بات پر ہی نہیں گیا کہ پھینکے جانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی کتاب میں بھی اللہ کا نام موجود ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ قرآن کے نام پر آئین کی بے عزتی ہوئی ہو۔ دو برس پہلے مولانا صوفی محمد نے بھی برملا کہا تھا کہ وہ نہ تو آئینِ پاکستان کو مانتے ہیں اور نہ اس کے تحت کام کرنے والی پارلیمنٹ کو اور نہ ہی عدلیہ کو۔ یہ سب ڈھانچے غیر اسلامی ہیں۔ قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔

مولانا صوفی محمد سے بھی پہلے جنرل محمد ضیا الحق نے قران و سنت کا نظام نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آئین کیا ہے؟ بارہ صفحے کی کتاب؟ جب چاہے پھاڑ دوں! اور پھر جنرل صاحب نے زنجیر بدست عدلیہ کی موجودگی میں معنوی طور پر آئین پھاڑ ڈالا۔

اور ضیا الحق سے بھی ساڑھے تیرہ سو برس پہلے جنگِ صفین میں حضرت علی کے لشکر کے خلاف صف آرا اموی لشکر نے جب اپنے قدم اکھڑتے محسوس کئے تو نیزوں پر قرآن بلند کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ اب اس کے ذریعے ہوگا۔ اس کے بعد کیا فیصلہ و فساد ہوا ۔یہ تاریخ پڑھنے والا عام آدمی بھی جانتا ہے۔

جب کوئی بھی شخص یا گروہ دلائل کی جنگ ہارنے لگے تو قرآن بیچ میں لے آئے۔ سب پیچھے ہٹ جائیں گے۔ کسی میں یہ پوچھنے کی جرات نہیں ہوسکتی کہ خود اس شخص کا عمل قرآن کے کتنا تابع ہے اور آس پاس کے لوگ اس شخص کی شہرت کے بارے میں کیا تاثر رکھتے ہیں۔

قرآن بیچ میں لانے والے شخص کے ذاتی کردار کی پرکھ تو خیر بہت دور کی بات ہے۔یہاں تو صرف اتنی افواہ بھی کافی ہے کہ فلاں شخص نے قرآن کی براہ راست یا استعاراً بے حرمتی کی ہے۔ لاشیں گرنے کے بعد تحقیق ہوتی ہے کہ اصل معاملہ کیا تھا۔

ان حالات میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے بھرے کمرے میں ایک درخواست گزار کے ڈرامے کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لے کر فراست کا ثبوت دیا۔ عدالت رہے گی تو انصاف بھی دے گی۔عدالت ہی نہ رہی تو۔۔۔۔

درخواست گزار بھی یہ نازک راز بخوبی جانتا تھا اسی لیے تو اس نے کمرہ عدالت سے باہر آکر سینہ تانتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ معافی وافی نہیں مانگی بس تحریری طور پر عدالت کا شکریہ ادا کیا ہے۔

کس مائی کے لال میں جرات ہے کچھ کہنے کی۔ ویلکم ٹو طالبانائزیشن ان کورٹ روم نمبر ون۔

No comments:

Post a Comment