Monday, 5 December 2016
Saturday, 3 December 2016
اسیر شہزادی
سنگدل رواجوں کی یہ عمارت کہنہ
اپنے آپ پر نادم اپنے آپ سے لرزاں
جس کا زرہ زرہ ہے خود شکستگی ساماں
یہ خمیدہ دیواریں یہ جھکی ہوئی کڑیاں
سنگدل رواجوں کے خستہ حال زنداں میں،
یہ اسیر شہزادی
جبروخوف کی دختر، واہموں کی پروردہ
مصلحت سے ہم بستر، ضعف و یاس کی مادر
سنگدل رواجوں کے خستہ حال زنداں میں
ایک صدا مستانہ، ایک رقص رندانہ
یہ عمارت کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی جس کا جسم شعلہ ہے
جس کی روح آہن ہے، جس کا نطق گویا ہے
بازوؤں میں قوت ہے، انگلیوں میں صناعی
یہ اسیر شہزادی جب نجات پاے گی
سانس لے گی دارانہ، محو رقص رندانہ
اپنی ذات پاے گی!!
فہمیدہ ریاض
Subscribe to:
Posts (Atom)
-
زے حال مسکین مَکُن برنجش ، بہ حال ے ہجراں بیچارہ دل ہے [مسکین کے حال پر ، رنجش نا کر ، ہجراں کی وجہ سے بچارا دل ہے ] سنائی دیتی ہے جس کی دھ...
-
تم حیا - و -شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو ہم نے ننگے جسموں کو ملبو س -ے -حیا دیکھا ہے ہم نے دیکھے ہیں احرام میں لپٹے کئی ابلیس ...