سنگدل رواجوں کی یہ عمارت کہنہ
اپنے آپ پر نادم اپنے آپ سے لرزاں
جس کا زرہ زرہ ہے خود شکستگی ساماں
یہ خمیدہ دیواریں یہ جھکی ہوئی کڑیاں
سنگدل رواجوں کے خستہ حال زنداں میں،
یہ اسیر شہزادی
جبروخوف کی دختر، واہموں کی پروردہ
مصلحت سے ہم بستر، ضعف و یاس کی مادر
سنگدل رواجوں کے خستہ حال زنداں میں
ایک صدا مستانہ، ایک رقص رندانہ
یہ عمارت کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی جس کا جسم شعلہ ہے
جس کی روح آہن ہے، جس کا نطق گویا ہے
بازوؤں میں قوت ہے، انگلیوں میں صناعی
یہ اسیر شہزادی جب نجات پاے گی
سانس لے گی دارانہ، محو رقص رندانہ
اپنی ذات پاے گی!!
فہمیدہ ریاض
No comments:
Post a Comment