Wednesday, 10 January 2018

مرد افضل ہے

مرد افضل ہے


قصور کے علاقے روڈ کوٹ سے چار روز قبل اغوا کی جا نے والی آٹھ سالہ بچی زینب کی لاش مل گئی ہے، سفاک ملزمان نے زینب کو زیادتی کے بعد گلہ گھونٹ کر ہلاک کر دیا اور پھر اس کی لاش کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔
اے خالقِ حیات تو کیا موت کے لیے
احسان زندگی کا اٹھا نا پڑا مجھے

واقعے کے بعد علاقہ مکینوں نے شدید احتجاج کیا جب کہ علاقے میں کاروبار بند رہا، زینب کے والدین عمرہ کی سعادت کے لیے سعودیہ میں ہیں اور اپنی بچی کی موت پر غم سے نڈھال ہیں۔

اس مملکتِ خدا داد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اللہ کے ماننے والوں نے جو اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ خدا ان کی نیتوں سے واقف ہے، ان کی شہ رگ سے قریب ہے وہ ستر ماؤں سے ذیادہ پیار کرتا ہے۔ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے، ہمارے ایک ایک عمل اور سوچوں پر اس کی نظر ہے اس کا پہرا ہے۔

اللہ پر توکل کرنے والے، جذبہ ایمانی سے سر شار، اپنے رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوستوں پر بھروسہ کر کے بچوں کو خدا کی حفاظت میں دے کر خود ایسی جگہ پہنچے جہاں جانے کی حسرت، خواہش، ایمان کا لازمی جزو سمجھی جاتی ہے، گڑگڑا کر استغفار کرنے والے، اللہ کی محبت سے سرشار، مکے کی روح پرور فضاؤں میں زینب کے والدین دنیا و مافیا سے بے خبرعبادات اور اللہ کے قرب کے نشے سے سرشاروں کو یہودیوں کے ایجاد کردہ اس منحوس موبائل سے جب وہ لعنتی گھنٹی بار بار بج رہی ہو گی تو انہیں اپنی یکسوئی ختم ہونے پر کیسی جھنجلاہٹ ہوئی ہو گی، کسی رشتے دار کا نمبر دیکھ کر برا منہ بنا یا ہو گا جو ان کی عبادات میں مخل ہو رہا ہے، مگر یہ کیسی خبر انہیں اس مبارک جگہ سننے کو ملی۔

''نہ سہی مژ دہٗ گل بادِ خزاں ہی آتی'' اپنا آرام و آسائش چھوڑ کر وہ اس پاک در پر اپنے بچوں کی لمبی عمر اور ترقی کی دعائیں ہی تو مانگنے آئے تھے دعا کی ہو گی کہ بچوں کو ہر مصیبت، دکھ تکلیف اور ہر بلا سے محفوظ رکھنا۔ وہ اپنے رب سے اپنے خاند ان کے تحفظ کی دعائیں مانگ رہے تھے، اور ان کے ملک میں ان کے مسلمان بھائی اپنے وحشیانہ عمل سے ان دعاؤں کو رد کرنے کا سبب بن رہے تھے، کس کے ایمان کو جلا ملی اور کس اللہ کے بندے کا طاغوتی عمل سرخرو ہوا مگر وہ دعائیں جو عرش ہلا دیتی ہیں وہ اس بچی کے ساتھ یتیم زمین میں دفن ہو گئیں۔

ان کے ٹکٹ پر جو کی واپسی کی تاریخ ہے اب انہیں اس میں تبدیلی کرانی ہے، وہ عمرے کی رسومات ا ور دورہ مختصر کر کے کیوں پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ وہ جس در پر آئے ہیں وہاں سے تو کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا، پھر وہ اتنے دکھی کیوں ہیں، ان سوالوں کا جواب ان کے پاس نہیں۔ دل کا درد سِوا ہے کسی پل چین نہیں، ان ظالموں نے ان کی عمر بھر کی خواہش کو عمر بھر کے پچھتاوے میں بدل دیا، رہ رہ کر انہیں یہ ملال ڈستا رہے گا کہ اپنا گھر اللہ کے سپرد کر کے اللہ کے گھر کیوں گئے۔

خود کو ہر صورت میں جنت کا حق دار سمجھنے والے کہ جنت مسلمانوں پر واجب کر دی گئی ہے، یوں خم ٹھوک کر گناہ کرتے ہیں کہ سب معاف ہو جا ئے گا، بس ایک حج کی مہلت مل جا ئے، یہ کو ئی نئی بات نہیں کہ اپنی کسی بھی غلطی کو دوسروں کے سر ڈال دو۔ سماجی دہشت گردی ہو تو ببانگِ دہل کہہ دو '' یہ حرکت کو ئی مسلمان نہیں کر سکتا '' اور اگر اپنا بیٹا کرے تو یہ سب اس کے دوستوں کی صحبت کی وجہ سے ہو ا ہے، اگر بیٹی گھر سے بھا گ جا ئے تو اپنی تربیت پر نظرِ ثانی کے بجا ئے سارا قصور نند کی بیٹی کے سر اس کیساتھ رہ کر بگڑ گئی، لاڈلا چوری کے جرم میں پکڑا جا ئے تو ماں با پ ایک دوسرے کی ڈھیل کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق ملزمان آٹھ ماہ میں تیرہ بچیوں کے ساتھ یہ بہیمانہ واردات کر چکے ہیں، مگر اب تک آزاد ہیں، کیا قصور میں کوئی عدالت نہیں یا ججز لمبی چھٹی پر ہیں، عدالتِ عالیہ کے معزز جج صاحبان تک خبروں کی رسائی نہیں یا عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس صاحبان کسی تائیدِ غیبی کے تحت خود کو ایسی بے ہودہ خبروں پر از خود نوٹس لینے کا مجاز نہیں سمجھتے، علما ئے کرام عبادات کی تکمیل پر زور دیتے ہیں، وہ جنت کی نوید اور دوزخ کے عذاب سے ڈراتے ہیں، وہ فطرت سے پیار کا سبق کیوں نہیں دیتے، صلہ ء رحمی کا درس، کمزوروں کی مدد اور ظلم کے خلام ڈٹ جانے کی تبلیغ کیوں نہیں کرتے وہ کیوں نہیں بتا تے کہ ظلم سے نفرت کرو کسی عقیدے اور مذہب کی بناء پر نفرت، نبی کی توہین ہے۔ علماء کرام مرد کو حیا کی تعلیم کیوں نہیں دیتے۔ حوروں کے جسمانی خدو خال بتا کر انہیں جنت کے لالچ کے بجا ئے دنیا کو جنت بنا نے کی ترغیب کیوں نہیں دیتے۔

تبلیغی اجتماع میں مردوں کے غول کے غول منہ کھولے دھیان لگا ئے مولانا صاحب کی بات سنتے ہیں۔ مرد افضل ہے۔ عورت کو صرف شوہر کے لیے سجنے کا حکم ہے، عورت کو اپنی عصمت کی حفاظت کے لیے خود کو چار دیواری میں قید رکھنا چا ہیے، مرد اس کی عصمت کا نگہبان ہے، عورت اس کی ملکیت ہے وہ اسے جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے، عورت کو قابو میں رکھنے کے طریقے اور جنت کے حصول کے لیے پانچ وقت نماز اور ایک حج ہزار مشکلات سے نجات دیتا ہے، مرد ان باتوں کو اپنے پگڑ میں باندھ لیتا ہے اور جا کر اپنی بیوی کو یہ سب بتا کر جنت میں جانے کی نوید دیتا ہے۔ کاش مردوں کے اس ریوڑ کو اور ان کی مردانگی کو ایک عضو کے طاقتور ہونے سے تعبیر کرنے، انہیں حوروں کا جسمانی خدو خال بتا نے، مباثرت کے شرعی اصول سکھانے ا کے بجائے ان کی شرم قائم رکھنے، اپنے نفس پر قابو، کمزوروں پر رحم، عورتوں کی عزت، اپنی بیویوں سے محبت، وقت کی پابندی، محنت کی عظمت، علم کی افادیت اور عزتِ نفس قائم رکھنے کی بابت بتا یا جا ئے۔

غاصب کو وار کرتے خوفِ خدا نہیں ہوتا کیوں کہ اسے یقین ہے کہ وہ حج کر لے گا تو ایسے ہو جائے گا جیسے ماں کے پیٹ سے جنم لیا اور پاکستان میں انصاف نے کبھی جھبکی لی بھی توقصاص و دئیت کا قانون زندہ باد۔ کسی شخص کے نیک ہونے کو اس کے پنج وقتہ نمازی ہونے سے تعبیر کیا جا تا ہے، داماد کی خوبیوں میں اس کے دیند ار ہونے کی خوبی سب خوبیوں پر حاوی رہتی ہے، کسی باریش انسان کو اس کے معاملات جانے بغیر احترام دیا جا تا ہے، ایسے میں جو ہو رہا ہے ابھی وہ بہت کم ہے۔ عورت کتنا ڈھکے کتنا چھپے بتاؤ وہ اپنے اوپر کتنی مٹی ڈالے، مگر افسوس مرد نما جانور تو مٹی ہٹا کر بھی اسے کھود ڈالتے ہیں قبرستانوں سے عورت کی قبر کی بے حرمتی کے واقعات عام ہیں۔ اب کیا کرے عورت کو پردے کالیکچر دینے والوں نے کبھی ایسے نفسیاتی مریضوں کے مسئلے کے حل کے لیے کوئی کوشش کی ہے۔

میں خدا ہوتا تو کیا میں بھی پسِ بود و نبود
بیٹھ کر ہونے نہ ہونے کاتماشا کرتا

No comments:

Post a Comment