Friday, 27 April 2018

Wikileaks: Kayani wanted more drone strikes in PakistanSHARE TWEET Wikileaks: Kayani wanted more drone strikes in Pakistan

Wikileaks: Kayani wanted more drone strikes in Pakistan

Wikileaks: Kayani wanted more drone strikes in Pakistan

Published: May 20, 2011
SHARES
   EMAIL
Cables obtained state that Kayani was requesting the US for greater drone back-up.

Cables obtained state that Kayani was requesting the US for greater drone back-up.

Newly released Wikileaks cables revealed that the US military's drone strikes programme within Pakistan had more than just tacit acceptance of the country's top military brass, despite public posturing to the contrary. The cables state that the country's military was requesting the US for greater drone back-up for its own military operations as long ago as January 2008.

According to cables , the US account of Kayani's request for "Predator coverage" does not make clear if mere air surveillance were being requested or missile-armed drones were being sought.

According to the report of the meeting sent back to Washington by Patterson, Admiral Fallon "regretted that he did not have the assets to support this request" but offered trained US Marines (known as JTACs) to coordinate air strikes for Pakistani infantry forces on ground. General Kayani "demurred" on the offer, pointing out that having US soldiers on ground "would not be politically acceptable."

As reported earlier in The Express Tribune, WikiLeaks cables revealed that Prime Minister Yousaf Raza Gilani allowed drone strikes in the tribal areas of Pakistan, saying they would protest the attacks in the National Assembly and then ignore them.

When Interior Minister Rehman Malik advised the US to hold off "alleged Predator attacks until after the Bajaur operation", Gilani brushed off the remarks saying:

I don't care if they do it as long as they get the right people. We'll protest in the National Assembly and then ignore it.

According to a leaked cable published on NDTV, in an earlier meeting on January 9, 2008 with Codel Lieberman, Chief of Army Staff (COAS) Kayani agreed that increased training and exercises with the US would be of great value, but urged that US-Pakistan military engagement remain low-key for domestic political reasons. Lieberman underscored need for Pakistan to hold free, fair elections in February.

They also discussed the need to add a humanitarian aspect to Pakistan's counterinsurgency strategy. Kayani noted four areas in which the Army was requesting technical assistance.

A cable dated February 19, 2009 sates:

The strikes have put increasing political pressure on the Pakistani government, which has struggled to explain why it is allowing an ally to violate its sovereignty. The GOP so far has denied recent media reports alleging that the U.S. is launching the strikes from bases in Pakistan. Kayani knows full well that the strikes have been precise (creating few civilian casualties) and targeted primarily at foreign fighters in the Waziristans. He will argue, however, that they undermine his campaign plan, which is to keep the Waziristans quiet until the Army is capable of attacking Baitullah Mehsud and other militants entrenched there.

The cable states that Anne Patterson remarks that "Kayani is often direct, frank, and thoughtful. .. is an avid golfer, he is President of the Pakistan Golf Association. He smokes heavily and can be difficult to understand as he tends to mumble.

The full text of the cables can be read on Dawn.com, The Hindu and NDTV. WikiLeaks has previously released cables to other media organisations including Guardian and the New York Times.



Saturday, 14 April 2018

تم کتنے بھٹو مارو گے از حسن مجتییٰ

'تم کتنے بھٹو مارو گے'
جو قریہ قریہ ماتم ہے
اور بستی بستی آنسو ہے
صحرا صحرا آنکھیں ہیں
اور مقتل مقتل نعرہ ہے
سنگ ستاروں کے لیکر
وہ چاند چمکتا نکلے گا
'تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا'


جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے
تم کتنا رستہ روکو گے
وہ اک ایسا جادو تھی
جو سر پر چڑہ کر بولے گی
ہر زنداں کے ہر مقفل کو
وہ چابی بن کر کھولے گی
شور ہواؤں کا بن کر
وہ آنگن آنگن ہولے گی
تم زندہ ہوکر مردہ ہو
وہ مردہ ہوکر زندہ ہے
'تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا'


تم خاکی وردی والے ہو
یا کالی داڑھی والے ہو
تم نیلے پیلے اودے ہو
یا گورے ہو یا کالے ہو
تم ڈاکو چور لٹیرے ہو
یا قومی غنڈے سالے ہو
اپنے اور پرائے ہو
یا اندھیاروں کے پالے ہو
وہ شام شفق کی آنکھوں میں
وہ سوہنی ساکھ سویروں کی
'تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا'


وہ دیس دکھی کی کوئل تھی
یا تھر میں برکھا ساون کی
وہ پیاری ہنسی بچوں کی
یا موسم لڈیاں پاون کی
تم کالی راتیں چوروں کی
وہ پنکھ پکھیرو موروں کی
'تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا'


وہ بہن کسانوں کی پیاری
وہ بیٹی مل مزدوروں کی
وہ قیدی تھی زرداروں کی
عیاروں کی سرداروں کی
جرنیلوں کی غداروں کی
ایک نہتی لڑکی تھی
اور پیشی تھی درباروں کی
'تم کتنے بھٹو مارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلےگا'


وہ بیٹی تھی پنج آبوں کی
خیبر کی بولانوں کی
وہ سندھ مدینے کی بیٹی
وہ نئی کہانی کربل کی
وہ خوں میں لت پت پنڈی میں
بندوقیں تھیں بم گولے تھے
وہ تنہا پیاسی ہرنی تھی
اور ہر سو قاتل ٹولے تھے
اے رت چناروں سے کہنا
وہ آنی ہے، وہ آنی ہے
وہ سندر خواب حقیقت بن
چھاجانی ہے، چھا جانی ہے
وہ بھیانک سپنا آمر کا
'تم کتنے بھٹو ماروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا'


وہ دریا دیس سمندر تھی
جو تیرے میرے اندر تھی
وہ سوندھی مٹی سندھڑی کی
وہ لڑکی لال قلندر تھی
'تم کتنے بھٹو مارو گے
ہر گھر سےبھٹو نکلے گا'

Tuesday, 10 April 2018

عمران خان ، سہیل وڑائچ


عمران آ رہاہے؟

11 اپریل ، 2018
عمران آ رہاہے؟

گو تبدیلی کی ہوا دیرسے چلی ہے مگر اب چل پڑی ہے انتخابی گھوڑے پرانے اصطبلوں سےرسّے تڑاکر بنی گالہ کی سبز چرا گاہ کی طرف سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ فضا مترنم ہے۔ چوہدری فواد جہلمی نے تو خود ہما کو عمران خان کے سر پربیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ رنگ برنگا ایرانی سیمرغ، جو صرف داستانوں اور شاعری میں موجود رہ گیا ہے، آج کل بنی گالہ کےکئی درختوںپر رقص کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ روحانیت کا اثر بھی جاری ہے۔ مخالفوں کے خلاف گھیرا جاری ہے اور عمران کا مستقبل سنہری نظر آ رہا ہے، ایسے میں کیوںنہ سو چاجائے کہ عمران آرہا ہے۔
سیاسی منظر میں تبدیلی سے انتخابی منظر بھی تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ملک کے تقریباً ہر حلقے میں تحریک ِ انصاف کو انتخابی گھوڑے میسر آچکے ہیں جو ریس میں بہترین مقابلہ کریں گے۔ اعداد وشمار کو دیکھا جائے تووہ بڑے حیران کن اور پریشان کن ہیں ۔ وہی ملک جس میں الیکشن اتحاد کا منظر پیش کرتا تھا، اب انتشار کا منظر پیش کرے گا۔ فرض کرلیتے ہیں کہ کچھ انتخابی نشستیں پہلے ہی فتح ہوچکی ہیں۔ انہیں ہم آسانی کےلئے ''مفتوحہ'' کہہ دیتے ہیں۔ بلوچستان کی 16،فاٹا کی 12اور شہری 
سندھ کی 21نشستیں ملا کرتقریباً 50کا بلاک بنتا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن میں جو کردار بلوچستان گروپ نے ادا کیا تھا، وہی کردار آئندہ الیکشن میں بھی نظر آئے گا۔ مفتوحہ بلاک وہ ہے جہاں آپریشن کے مطابق معاملات مکمل طورپرکنٹرول میں آگئے ہیں وہاں صرف امن و امان ہی کنٹرول میں نہیں آیا سیاست بھی کنٹرول میں آگئی ہے۔ 

دوسرے بلاک کو ''مجروحہ'' کہہ لیتے ہیں۔ یہ پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی کا ہوگا۔ یہ پہلے کافی ٹیڑھے ہوتے تھے، مونچھوں پر تائو دیا کرتے تھے، سینہ پھلاکر چلا کرتے تھے مگر ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اورشرجیل میمن کاحال دیکھ کر ان کے مجروح دل نے نئی انگڑائی لی ہے اور اب وہ مکمل طور پر سدھائےجاچکےہیں۔ ان کو تھوڑا بہت مجروح کرنا پڑا اس لئے انہیں مجروحہ کہتے ہیں۔ مجروح گروپ کی دیہی سندھ کی 36نشستوں پر نظر ہے۔ انہیں امید ہے کہ جنوبی پنجاب، خیبرپختونخوا اور ''اِدھر اُدھر'' سے وہ 15، 16 مزید نشستیں لے کر سینیٹ الیکشن والا منظر دہرانے کی کوشش کریں گے۔ سیاسی شطرنج کے کھلاڑی آصف زرداری اسی لئے سمجھتے ہیں کہ مفتوحہ اور مجروحہ گروپ مل کر آئندہ انتخابات کی گیم بدل دیں گے۔ 
مشکل صرف ایک بلاک کی طرف سے ہے جسے ''مقبوضہ'' کہہ لیتے ہیں۔ اس بلاک پر ن لیگ قابض ہے۔ پنجاب کی 141نشستیں حلق کا وہ کانٹا ہیں جن کا مسئلہ حل کئے بغیر اگلی حکومت بنانا ممکن نہیں۔ مقبوضہ گروپ ان دنوں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے۔ جنوبی پنجاب کے 10اراکین نے مخدوم خسرو بختیار کی سربراہی میں صوبہ جنوبی پنجاب کے مطالبے پر ن لیگ سے علیحدگی اختیارکرلی۔ کچھ لوگ نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کی وجہ سے پارٹی بدلنا چاہتے ہیں۔ مقبوضہ نشستوں کو کم سے کم کرنے کے لئے حکومت پنجاب کی کارکردگی پرسنجیدہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ کوشش یہ ہو گی کہ پنجاب میں ن لیگ کی نشستیں آدھی رہ جائیں۔ یوں 70کے قریب نشستیں مقبوضہ رہ جائیں گی جبکہ باقی 70نشستیں مفتوحہ میں شامل ہوجائیں گی لیکن یہ70نشستیں مفتوحہ بلاک کو نہیں بلکہ ''صادقیہ'' گروپ کو ملیں گی۔ عمران خان کو چونکہ عدالت نے صادق اور امین قراردے دیا ہے اس لئے اسے ''صادقیہ'' سے بہتر کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ صادقیہ نے 2013میں مجموعی طورپر 35نشستیں حاصل کرلی تھیں۔ کوشش یہ ہوگی کہ پنجاب میں 60 سے 70 نشستیں ''مقبوضہ'' سے لے کر ''صادقیہ'' کو دے دی جائیں یوں صادقیہ بآسانی 100سے زائد نشستوں پر محیط سب سے بڑا بلاک بن جائے گا۔ مفتوحہ اور مجروحہ ساتھ مل گئے تو حکومت کامیابی سے چل جائےگی۔ مفتوحہ کے 50لوگ عمران خان پر بھی احتسابی نظررکھیں گے تاکہ وہ اتنے آزاد نہ ہوجائیں کہ اپنی مرضی کے فیصلے کرتے پھریں۔
فرض کرلیںکہ معلق پارلیمان میں سے صادقیہ گروپ حکومت بنا لیتا ہے، عمران خان وزیراعظم بن جاتے ہیں توکیاوہ حکومت چلالیں گے؟ میرے خیال میں عمران نے 100سے زائد اوورسیز پاکستانیوں کی ایک فہرست بنارکھی ہے جنہیں وہ واپس بلا کر مختلف شعبوںکو ان کے حوالے کریں گے تاکہ وہ ان شعبوں کی اصلاح کریں۔
یہ سب ٹھیک سہی مگر کوئی عمران خان کو جا کر یہ بھی کہے کہ وہ ملک کی معاشی پالیسی کاکوئی نقشہ بھی تو پیش کرے اپنی شیڈو کابینہ کا بھی تو اعلان کرے۔ 
عمران خان کو چاہئے کہ تعلیم اور صحت کے حوالے سے اپنا پروگرام سامنے لائے تاکہ ابھی سے اس پر بحث و نظر ہو اور جب اس پر عمل کا وقت آئے تو معاملات پہلے سے طے شدہ ہوں اس وقت بحث کا آغاز نہ ہوجائے۔ ''صادقیہ'' گروپ کو میڈیا کے حوالے سے بھی ازسر نوغور کرنا چاہئے۔ میڈیا اور اینکرز سے مسلسل ناراضی اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے تو سمجھ آسکتی ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کی میڈیا سے لڑائی دنیا بھر میں مذاق بن جائے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے پالیسی میں تبدیلی کی جائے اور مخالفانہ بات کو سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ 
عمران خان کو سیاسی لیڈر سے اگر قومی لیڈر بننا ہے تو انہیں خاموشی کا روزہ توڑ کر خارجہ پالیسی اور فوج کے حوالے سے بھی اپنی سوچ کا اظہار کرناچاہئے۔ سول ملٹری تعلقات کیسے بہتر ہوں گے؟ اس پر بھی بات ہونی چاہئے کہ پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ یہی رہا ہے۔ فی الحال ''صادقیہ گروپ'' کا اس پر کوئی واضح موقف نہیں ہے۔ اسی طرح عمران خان کو اپنی حکومت کے پہلے سو دن کا ایجنڈا بھی سامنے لانا چاہئے۔ وہ ان سو دنوںمیں ''نیا پاکستان'' کارخ کس طرح متعین کریں گے؟ ان کی ترجیحات کیا ہوں گی؟ عمران خان کی خدمت میں یہ بھی عرض کرنا چاہئے کہ ان کے حامیوں کی بڑی تعداد پاکستانی مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے، یہ کلاس تیز ترین تبدیلی پر یقین رکھتی ہے۔ مڈل کلاس سب سے زیادہ تیزی سے مایوس بھی ہوتی ہے۔ یہ فوراً سیاسی بے وفائی پر بھی آمادہ ہوجاتی ہے، اس لئے عمران خان کو لمبا ہنی مون پیریڈ نہیں ملے گا اور انہیں جلد از جلد تبدیلی لانا ہوگی۔ دوسری طرف کرپشن اور احتساب کا جو معیار عمران خان اور صادقیہ گروپ نے بنا دیا ہے، اس کا اطلاق ان پر بھی ہوگا۔ عمران خان کواپنی حکومت اور جماعت کو اس قدر شفاف رکھنا ہوگا کہ ایک بھی انگلی ان کی طرف نہ اٹھ سکے اور اگر ایسی انگلیاں اٹھیں تو اخلاقی برتری کا صادقیہ مینار دھڑام سے زمین بوس ہوجائے گا۔ 
ظاہر ہے کہ اوپر لکھی ہوئی ساری کہانی صرف ایک رخ پر مبنی ہے۔ ن لیگ کی کوشش ہوگی کہ پنجاب کا قلعہ فتح نہ ہو پائے۔ نواز شریف مزاحمتی تلوار اور شہباز شریف مفاہمتی ڈھال سے قلعے کی حفاظت کرتے ہوئے پنجاب سے سو سے زائد نشستیں جیتنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں نظرانداز کرنا مشکل ہو جائے اور وہ مرکزی اور صوبائی سیٹ اپ کے لئے ناگزیر بن جائیں یا پھرہر وقت نئے سیٹ اپ کےلئے خطرہ بنے رہیں۔ یہ ساری فرضی اورتصوراتی باتیں ہیں گو ان میں ماضی کا تجربہ، حال کی تبدیلیاںاور مستقبل کے اشارے شامل ہیں۔ آپ اپنی مرضی کے مطابق اس کہانی میں رنگ بھر سکتے ہیں۔

نصرت جاوید ، بلوچستان ، جنوبی پنجاب

برملا
نصرت جاوید



بلوچستان کا "احساسِ محرومی" دور کرنے کے لئے عمران خان صاحب نے کڑوا گھونٹ پیا۔ کرپشن کے خلاف لگے جہاد کے محاذ سے چند لمحوں کی رخصت لی اور سیاسی منظر نامے پر تقریباََ ایک نووارد صادق سنجرانی کو سینٹ کا چیئرمین منتخب کروادیا۔ اس انتخاب کو یقینی بنانے کی خاطر انہیں "دنیا کی سب سے بڑی بیماری" کے نامزد کردہ سلیم مانڈوی والا کو اس ایوان کا ڈپٹی چیئرمین بھی بنوانا پڑا۔صادق سنجرانی کے ہم نواﺅں نے اپنی محرومی دور کروالینے کے بعد مگر تحریک انصاف میں شامل ہونا مناسب نہ سمجھا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت کھڑی کرلی۔ اس جماعت کو مزید توانا بنانے کے لئے وفاقی کابینہ کے ایک رکن جام کمال نے استعفیٰ دے دیا۔موصوف کے دادا اور والد برسوں سے مرکز پسند سمجھے جاتے تھے۔ مرکز پسندی کو ہمارے ہاں حب الوطنی کا مترادف بھی سمجھا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں بالغ رائے دہی کے ذریعے 1970میں ہوئے پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی مینگل حکومت کو برطرف کرنا چاہا تو جام کمال کے دادا نے ان کو قبائلی کمک فراہم کی۔ محمد خان جونیجو کے دور میں وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نامزد ہوئے۔ بلوچستان کا احساسِ محرومی مگر دور نہ ہوا۔بالآخر جنرل پرویز مشرف نے ان کے فرزند جام یوسف کو 2002ءمیں ہوئے انتخابات کے بعد بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنایا۔ بلوچستان کا احساس محرومی مگر اپنی جگہ برقرار رہا۔ امید ہے کہ جام کمال بلوچستان عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد وزارتِ اعلیٰ کے منصب تک پہنچ گئے تو محرومی کے اس احساس کو دور کرنے میں آسانی ہوگی۔ایسا مگر ہوا تو قدوس بزنجو کو بہت دُکھ پہنچے گا۔بہرحال سردار ثناءاللہ زہری سے بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ انہوں نے بہت محنت سے چھینی ہے۔ بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ کو ایک سردار سے چھیننے کے بعد ہمارے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے والے اس محب وطن اور صاف ستھرے نوجوان سیاست دان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ انہیں وزیر اعلیٰ نہ بنایا گیا تو وہ ایک ذاتی نوعیت کے احساسِ محرومی کا شکار ہوجائیں گے۔ انہیں شبہ ہوگا کہ نواز شریف کو سینٹ کی گیم میں زچ کرنے کے لئے انہیں استعمال کرنے کے بعد نظرانداز کردیا گیا۔بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت کو فارغ کرنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے نواب اکبر بگٹی کو استعمال کیا تھا۔ کام نکال لینے کے بعد انہیں بھی فارغ کردیا گیاتھا۔ کئی برسوں کے وقفے کے بعد بھٹو کی بیٹی کی حکومت کو مفلوج بنانے کے لئے بگٹی صاحب1989میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ محض دو سال کی وزارتِ عظمیٰ کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت اگست 1990میں صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں فارغ ہوئی تو بگٹی صاحب کی بھی ضرورت نہ رہی۔ مسلسل ناراض رہتے ہوئے مشرف کے دور میں بالآخر پہاڑوں پر چلے گے۔انجام کافی تکلیف دہ ہوا۔ ربّ کریم سے فریاد ہے کہ قدوس بزنجو کو اپنے دل میں بگٹی صاحب جیسے جذبات پیدا کرنے کا موقع نہ ملے۔ وطن عزیز کے استحکام اور خوش حالی کی خاطر آنے والے کئی برسوں تک ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت برقرار رہے۔بلوچستان کے احساسِ محرومی کودور کرنے کی خاطر اس صوبے سے اُٹھے باصلاحیت نوجوانوں کے نمودار ہونے نے مجھے محترمہ زبیدہ جلال کی یاد دلادی ہے۔ 2002کے انتخابات میں وہ مکران کے ساحلی علاقوں سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ ان کے انتخاب کو یقینی بنانے کے لئے "بابائے بلوچستان" کے جانشین حاصل بزنجو کو خصوصی طورپر اسلام آباد بلواکر انتخابی دوڑ سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا۔ بہت ہی Pragmaticحاصل نے یہ مشورہ سرجھکا کر مان لیا۔محترمہ زبیدہ جلال کرشماتی ہیولے کے ساتھ اسلام آباد میں نمودار ہوئیں تو یہاں کے صحافتی حلقوں میں تھرتھلی مچ گئی۔ ان کا بیک گراﺅنڈ معلوم کرنے کی لگن میں تحقیق شروع ہوگئی۔دریافت یہ ہوا کہ پڑھے لکھے خوشحال خاندان سے تعلق رکھتی ہےں۔ خاندان ان کا مکران میں تعلیم کے فروغ کے لئے خطیر رقم خرچ کرتا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم سفارت کاروں کو ان کی یہ شہرت بہت بھائی۔ ان کی معرفت ساحل مکران میں فروغ تعلیم اور Women Empowermentکے لئے کئی منصوبوں کی بین الاقوامی NGOsکے ذریعے فنڈنگ ہونا شروع ہوگئی۔2003میں افغانستان کی جنگ سے فارغ ہوئے بغیر امریکہ نے عراق پر بھی حملہ کردیا۔ کئی لوگوں کو گماں ہوا کہ عراق کے بعد ایران کی باری ہے۔ یہ باری آجاتی تو Strategicحوالوں سے ہمارا بلوچستان عالمی قوتوں کی لگائی Great Gameکے لئے بہت اہم ہوجاتا ۔ بلوچستان کے احساسِ محرومی کو دور کرنے کے لئے جنرل پرویز مشرف نے میر ظفر اللہ خان جمالی کو وزیر اعظم بنوایا تھا۔ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائزہوجانے کے بعد جمالی صاحب نے لیکن"میری" والا انداز برقرار رکھا۔صبح دیر سے اُٹھتے اور کچہری لگاکر دوستوں سے حال احوال شروع کردیتے۔ دفتر بہت دیر سے آتے اور وہ بھی تھوڑی دیر کو۔ کمانڈو صدر کو ایسی "غیر منظم" زندگی پسند نہ آئی۔سرگوشیاں شروع ہوگئیں کہ ان کا متبادل ڈھونڈا جارہا ہے۔مجھ تک ان سرگوشیوں کی بھنک پہنچی تو بخدا میں نے محض شرارتاََ اپنے انگریزی کالم میں بغیر کسی ٹھوس وجہ اور اطلاع کے یہ کہانی چلادی کہ میر ظفر اللہ جمالی کا متبادل بلوچستان ہی سے چنا جائے گا تاکہ اس صوبے میں احساسِ محرومی کی لہر دوبارہ نہ چل پڑے۔کالم نگارِ جب کوئی مفروضہ گھڑلے تو اسے بااعتباربنانے کے لئے دلائل ایجاد کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے "دریافت" کیا کہ ہمارے بہت ہی Enlightened Moderated صدر مشرف انتہائی خلوص Women Empowermentکو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جمالی صاحب کا متبادل کوئی خاتون سیاست دان ہو۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو عالمی میڈیا میں Daughter of the Eastبھی کہا جاتا تھا۔میں نے نہایت ڈھٹائی سے محترمہ زبیدہ جلال کو Daughter of the Coastکا لقب دے دیا یعنی "ساحل (مکران) کی بیٹی"۔ انگریزی اخبارات کے چند یورپی اور امریکی قارئین کو یہ لقب بہت پسند آیا۔امریکی فوج کے ایک سابق سربراہ Colin Powellان دنوں اس ملک کے وزیر خارجہ ہوا کرتے تھے۔ محترمہ زبیدہ جلال امریکہ کسی اور مقصد سے دورے پر تشریف لے گئیں تو ان سے ملاقات کا اہتمام بھی ہوگیا۔ اخباروں کے لئے ایک تصویر جاری ہوئی جس میں Colin Powellچہرے پر فاخرانہ مسکراہٹ سجائے محترمہ زبیدہ جلال سے ہاتھ ملاتے ہوئے ان کا اپنے دفتر میں خیر مقدم کررہے تھے۔ میرا مفروضہ سچ ہوتا نظر آیا۔ یہ خبر ا لبتہ مجھے ذمہ دار "ذرائع" سے مل چکی تھی کہ جمالی صاحب کے بعد شوکت عزیز کو وزارتِ عظمیٰ پر بٹھانے کی تیاری ہورہی ہے۔ Daughter of the Coastکے ساتھ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوچکا ہے۔ ان دنوں مجھے خبر نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ ربّ کریم سے اس لئے فریاد ہے کہ قدوس بزنجو کو ان جیسی گمنامی سے بچائے رکھے۔یہاں تک پہنچا ہوں تو خیال آیا کہ اس کالم کے ذریعے میں نے درحقیقت بلوچستان نہیں جنوبی پنجاب کے احساس محرومی کا ذکر کرنا تھا جسے دور کرنے کے لئے سرائیکی وسیب کے "میاں والی قریشیاں" کے نوجوان مخدوم خسروبختیار پیر کی سہ پہر منظرِ عام پر آگئے ہیں۔ ضلع رحیم یار خان سے ابھرے "قدوس بزنجو"۔ توجہ ان کے بنائے "جنوبی پنجاب صوبہ محاذ " پر دینا تھی مگر یاد "ساحل کی بیٹی" آگئیں۔ یقینا سٹھیا گیا ہوں۔ ارتکاز توجہ کی صلاحیت سے بتدریج محروم ہورہا ہوں۔ اس موضوع کو کسی اور دن کے لئے ٹالنا ہوگا۔٭٭٭٭٭