Saturday, 24 November 2012


خاموش کنارہ کہہ دے گا 
جو بات کہ اصغر کہ نہ سکے
بہتا ہوا دریا کہہ دے گا 
کس طرح جوانی خاک ہوئی
لیلیٰ کا کلیجہ کہہ دے گا 
بہتے ہوۓ آنسوؤں کہہ دیں گے 
اترا ہوا چہرہ کہہ دے گا 
رحمت کی نواسی کا عالم
اٹھتا ہوا پردہ کہہ دے گا 
کس طرح چھینی سر سے چادر
جلتا ہوا خیمہ کہہ دے گا 
کس طرح گیے اصغر رن میں
آباد ہوئی کیوں کر تربت 
بانو کی اداسی کہہ دے گی 
اجڑا ہوا جھولا کہہ دے گا 
اکبر کی اجل آیی پہلے
یا برجھی کا پھل نکا پہلے 
شبیر کی قسمت کہہ دے گی
اکبر کا کلیجہ کہہ دے گا 
امّت کے لیے اصغر آیے
پانی نہ ملا پیاسے ہی گیے 
چپ ہوگی اگر ننھی سی لحد
اجڑھا ہوا جھولا کہہ دے گا 
ہر گام پہ ٹھوکر کھا کھا کر
جب باپ پسر کو ڈھونڈے گا 
کس سمت اکبرہے کی میّت
الجھا ہوا راستہ کہ دے گا 
شادی سے غرض ،شادی کب تھی 
یہ درس الم تھا دنیا کو 
کچھ دیر کا دولہا کہہ دے گا 
اجڑا ہوا سہرا کہہ دے گا
جو بات کہ اصغر کہہ نہ سکے
بہتا ہوا دریا کہہ دے گا

No comments:

Post a Comment