زینب نیں تب کہا تمھیں اس سےکیا کام
کیا داخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھوں نہ کیجیو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لو گے زبان سے علم کا نام
بس جاؤ الگ کھڑے ہو ہاتھوں کو جوڑ کے
کیوں آیے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے ؟
سرکو ہٹو بڑھو نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک پاس
پوتے ہو اور آیے ہو تم مرے حواس
بس بھی یہ قبول نیں تمہاری یہ التماس
رونے لاگو تمھیں جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچپنے کے سوا اور کیا کہوں
عمر قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جایے گرچے یہ ہمت کے ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ناہو سکے کیوں بشر اس کی ہوس کرے
!!ان ننھے ننھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
ہاں غصے کو تھام لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جو لیں ہم علم کا نام
کھل جایے گا جب لڑیں گے یہ با وفا غلام
اماں ! فوجیں بھگا کے گنج شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوویں گے
No comments:
Post a Comment