Wednesday, 15 June 2016

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں
ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے

آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں
ان دنوں تم بہت شریرہوئے

ایسی ہستی عدم میں داخل ہے
نَے جواں ہم ،نہ طفلِ شیر ہوئے

ایک دم تھی نمود بود اپنی
یا سفیدی کی، یا اخیر ہوئے

یعنی مانندِ صبح دنیا میں
ہم جو پیدا ہوئے سو پِیر ہوئے

مت مل اہلِ دوَل کے لڑکوں سے
میر جی ان سے مل فقیر ہوئے

۔۔۔ میر تقی میر

No comments:

Post a Comment