Sunday, 16 September 2018

نمی دانم لال شہباز قلندر


نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم 
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم 

نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔ 

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم 
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم 

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔ 

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی 
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم 

تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔ 

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں 
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم 

آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔ 

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے 
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم 

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔ 

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را 
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم 

واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔ 

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم 
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم 

میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔ 

No comments:

Post a Comment