Friday, 4 January 2019

مرثیہ قمر جلالوی


آمد ہے ابنِ حیدرِ گردوں وقار کی
رفتار ہے وہی شہِ دلدل سوار کی
ہیبت سے کانپتی ہے زمیں کارزار کی
اک شورِ الاماں ہے صدا آبشار کی
پانی جو نہر کا نگہِ صف شکن میں ہے
موجوں کا ہے یہ حال کہ رعشہ بدن میں ہے

میداں میں دور دور کھڑے ہیں جفا پرست
بگڑا ہوا ہے شام کے لشکر کا بندوبست
جو تھے بلند حوصلہ وہ ہو گئے ہیں پست
یعنی ابھی لڑے نہیں اور کھا گئے شکست
ہیں مشورے کہ جان بچانی ضرور ہے
اب صبح صبح بھاگ چلو شام دور ہے

چِلّا رہا ہے نہر سے شمرِ زبوں صفات
او ابنِ سعد فوج سے دھو بیٹھ اپنے ہات
خالی پڑی ہوئی ہے نگہبانوں سے فرات
ساحل پہ آ کے دیکھ کہ اب ڈوبتی ہے بات
تو نے جو پُل غرور کا باندھا تھا گر گیا
پانی امیرِ شام کی بیعت پہ پھر گیا

حالانکہ نہر پر ابھی آیا نہیں وہ شیر
روباہ کی طرح سے چھپے ہیں ترے دلیر
میدان صاف ہو گیا کچھ بھی لگی نہ دیر
تیری طرف جو بھاگ رہے ہیں انہیں تو گھیر
ثابت قدم جواں نہ رہے عہد توڑ کر
بے آبرو تھے بھاگ گئے نہر چھوڑ کر

پہلے بتا دیا تھا تجھے دیکھ کر نگاہ
حالت سحر سے شام کے لشکر کی ہے تباہ
راہِ فرار ڈھونڈتے پھرتے ہیں روسیاہ
عباس کا یہ ڈر ہے کہ اللہ کی پناہ
حملہ کوئی ہوا نہیں جانوں کی پڑ گئی
لکھ دے یزید کو کہ لڑائی بگڑ گئی

غائب تمام نہر سے چھوٹے بڑے ہوئے
پاؤں اکھڑ گئے ہیں سبھوں کے گڑے ہوئے
سنسان ہیں فرات کے ناکے پڑے ہوئے
تھرّا رہے ہیں مردمِ آبی کھڑے ہوئے
عباس کو یہ سُن کے جری ہیں غیور ہیں
طوفان اٹھ کے دیکھتا ہے کتنی دور ہیں

ناگہ نشانِ فوجِ حسینی عیاں ہوا
پنجے کی ضو پہ مہرِ فلک کا گماں ہوا
پرچم ہوا میں رشک دہِ کہکشاں ہوا
سقہ حرم سے جانبِ دریا رواں ہوا
آنکھیں بچھی ہوئی ہیں حبابوں کی راہ میں
موجیں تڑپ رہی ہیں بہشتی کی چاہ میں

بڑھتے ہیں جتنے حضرتِ عباس نامدار
اُتنا ہی ابنِ سعد کو ہوتا ہے انتشار
لشکر کی سمت دیکھ کے کہتا ہے بار بار
کیوں بت بنے کھڑے ہو یہ کیا ہے خدا کی مار
ڈرتے ہو اتنا عقل میں کچھ پھیر تو نہیں
آخر وہ آدمی ہے کوئی شیر تو نہیں

کہتی ہے فوج یہ تری قسمت کا پھیر ہے
ہم جانتے ہیں جتنا وہ غازی دلیر ہے
اب چھین لینا نہر کوئی دم کی دیر ہے
جس سے کہ شیر کانپتے تھے اُس کا شیر ہے
مشہورِ خلق نام خدا کے ولی کا ہے
تیور بتا رہے ہیں کہ بیٹا علی کا ہے

کر یہ دعائیں خالقِ اکبر کے سامنے
آ جائے وہ نہ شام کے لشکر کے سامنے
کوئی نہ جم سکے گا دلاور کے سامنے
قطروں کی کیا بساط سمندر کے سامنے
سنتے ہی نام رعب جوانوں پہ چھا گیا
یہ ذکر تھا کہ شیر ترائی میں آ گیا

اب کس کی ہے مجال کہ دریا کے پاس آئے
دانستہ اپنی جان کوئی کس طرح گنوائے
حالانکہ دور دور کھڑے ہیں پرے جمائے
اُس پر بھی حال یہ ہے کہ دل جیسے بیٹھ جائے
بیکار سب کے واسطے راہِ فرار ہے
جائیں کہاں کہ موت تو سر پہ سوار ہے

کوشش میں پھر رہا ہے بِنِ سعدِ بدگہر
رہ رہ کے ڈالتا ہے نگاہیں اِدھر اُدھر
کوسوں نہیں ہے کوئی نگہبان نہر پر
تنہا کھڑے ہیں حضرتِ عباس نامور
قبضے پہ ہاتھ زینِ فرس پر تنے ہوئے
بالکل جنابِ حیدرِ صفدر بنے ہوئے

فرما رہے ہیں دور ہو کیوں میرے پاس آؤ
ہوتے ہیں کیا حسین پیمبر کے یہ بتاؤ
نانا کا کلمہ پڑھ کے نواسے پہ ظلم ڈھاؤ!
بحرِ عتاب میں کہیں تم سب نہ ڈوب جاؤ
دیکھا نہیں ہے تم نے ابھی میرے قہر کو
دریائے خوں بہے گا جو روکے گا نہر کو

اِترا گئے ہٹا جو لیے شاہ نے خیام
دیکھوں جو روکے اب مجھے فوجوں کا اژدہام
فرزندِ شیرِ خالقِ اکبر ہوں لاکلام
تلوار کھینچ لوں تو نہ کوفہ رہے نہ شام
سمجھی ہے مجھ کو اے سپہِ بدصفات کیا؟
بیر العلم سے لے لیا پانی فرات کیا؟



کس جا چھپا ہوا ہے بنِ سعدِ بدگہر
سالارِ فوج بن گیا اور ڈر ہے اس قدر
کہہ دو کہ کہہ رہے ہیں یہ عباسِ نامور
افسر تجھے بنا دیا لعنت یزید پر
دب کر قضا سے دل میں ہے ارمان اوج کا
کیسا جری ہے آسرا کرتا ہے فوج کا

میداں میں ہم سمجھتے ہیں لاکھوں کو بے ثبات
اب تک جہاں گئے ہیں رہی ہے ہماری بات
گر جمع ہو کے ہم سے لڑے ساری کائنات
ممکن نہیں کہ ہاتھ سے جاتی رہے فرات
جا کر عَلَم بھی گاڑیں گے کوفہ کے شہر پر
قبضہ تو کر لیا ہے سرِ دست نہر پر

ہر حال میں شریک ہے ذاتِ خدا میری
سب کچھ سنا مگر نہ ہوئی ابتدا میری
یہ انتہائے ضبط تھی اے اشقیا میری
اب مانتے نہیں ہو تو دیکھو وغا میری
وہ رن پڑے قسم شہِ بدر و حنین کی
فوجیں پکار اُٹھیں کہ دہائی حسین کی

یہ کہہ کے لی میان سے شمشیرِ آبدار
حملہ کیا جری نے ہوا حشر آشکار
حالانکہ فوجِ شام تھی بے حد و بے شمار
یہ حال تھا جو مر گئے سو (100) بھاگ اٹھے ہزار
دشتِ وغا سے چل دیے جو منہ کو پھیر کے
لے آئی اُن کو موت وہیں گھیر گھیر کے

اس طرح شامیوں پہ گری تیغِ لاجواب
جیسے خدا کی سمت سے نازل ہوا عتاب
تھا قلبِ فوجِ شام میں فرزندِ بوتراب
غل تھا کہ رات میں نکل آیا ہے آفتاب
توبہ جو کر لے اب بھی بڑا خوش نصیب ہے
آثار دیکھ لو کہ قیامت قریب ہے

کہتا تھا کوئی موت تو ٹلنے کی اب نہیں
پاؤں پکڑ لیے ہیں نہ چھوڑے گی یہ زمیں
ڈر ہے کہ بزدلوں میں نہ مخبر لکھیں کہیں
کج فہم ہے یزید ضرور آئے گا یقیں
بہتر ہے یہ بلاؤ کسی پہلوان کو
کر دے جو بے نشان علی کے نشان کو

یہ سُن کے نکلا فوجِ ستمگر سے ایک یَل
کچھ مشورے کے بعد اسے لے چلی اجل
عباس کے قریب جب آیا پئے جدل
کہنے لگا کہ اے پسرِ شیرِ حق سنبھل
کافی پئے رجز ہے یہ جملہ اخیر کا
دشمن ہوں خاندانِ جنابِ امیر کا

افسوس آج تک مجھے اُس دن کا ہے بڑا
آوازِ مصطفیٰ پہ جب آئے تھے مرتضیٰ
ہر خیبری کو رن میں تہِ تیغ کر دیا
مرحب مجھے بُلا کے نہ لایا غضب کیا
محروم میری تیغِ فلک سیر ہو گئی
خیبر کے در پہ میں نہ ہوا خیر ہو گئی

شہرہ نہیں ہے سارے جہاں میں کہاں مرا
دبتی ہے وہ زمیں قدم ہو جہاں مرا
تھرائے گُرز دیکھ لے گر آسماں مرا
دنیا نے نام رکھا ہے کوہِ گراں مرا
آبادیوں کے حق میں سراپا اجاڑ ہوں
اپنی جگہ سے جو نہ ہٹے وہ پہاڑ ہوں

یہ کہہ کے اس نے کھینچ لی تلوار غیظ میں
لایا بڑھا کے سامنے رہوار غیظ میں
اندھا بنا ہوا تھا بداطوار غیظ میں
پیہم طرح طرح سے کیے وار غیظ میں
قبضے کی شئے غرض دمِ پیکار چھن گئی
اب موت سامنے ہے کہ تلوار چھن گئی

بولے یہ تیغ چھین کے عباسِ ذی حشم
دیکھا کہ کوہ کو بھی سمجھتے ہیں کاہ ہم
نیزہ سنبھال کر جو بڑھا بانیِ ستم
چورنگ کر گئی اسے شمشیرِ برق دم
خود ہی اجڑ کے رہ گئے ساماں اجاڑ کے
بجلی گری تھی اڑ گئے ٹکڑے پہاڑ کے

ساقی شکست کھا گیا باطل شراب لا
مقتول ہے جو بنتا تھا قاتل شراب لا
اِس وقت موج میں ہے مرا دل شراب لا
دریا کی فتح ہے سرِ ساحل شراب لا
اِس وقت جام کی نہیں حاجت شراب کو
ساغر بنا لیا ہے الٹ کر حباب کو


کوثر سے بڑھ کے طاہر و اطہر ہو وہ شراب
مثلِ گلِ بہشت معطر ہو وہ شراب
مقبولِ بارگاہِ پیمبر ہو وہ شراب
مداح جس کا خالقِ اکبر ہو وہ شراب
جس کا کہیں نشاں نہ ہو دنیائے زشت میں
یا تیرے میکدے میں ملے یا بہشت میں

ساقی ہیں جس کے شاہِ ولایت وہی شراب
کعبہ میں جس کی خاص اجازت وہی شراب
جو اہلِ بیت کی ہے محبت وہی شراب
جس کی نماز میں ہے ضرورت وہی شراب
اُس خاص مئے کا جام جو مشہورِ عام ہے
جس کے پیے بغیر عبادت حرام ہے

بے چین ہو گئے ترے میخوار لا شراب
بہرِ خدا شراب پئے مصطفیٰ شراب
شیشہ سنبھال جام اٹھا لے پلا شراب
مشکل کشا کا واسطہ معجز نما شراب
ساغر سے مئے چھلک کے ثبوتِ شرف بنے
قطرہ گرے زمیں پہ تو دُرِّ نجف بنے

دریا کی فتح دیکھ کے دل ہے مرا مگن
رحمت خدائے کون و مکاں کی ہے موج زن
برسے کنارے نہر کے اتنی ہو مئے کہن
بھیگے تمام تیرے شرابی کا پیرہن
اس درجہ پاک ہو کہ نبی آرزو کریں
دامن نچوڑ دوں تو فرشتے وضو کریں

ساقی پھر اُس کے بعد ضرورت مجھے نہیں
قائم رہے گا نشہ یہ تاحشر بالیقیں
لیکن خیال اب تو ہے عباس کے قریں
فوجیں کہاں کھڑی تھیں کہاں پر پہونچ گئیں
ایسی ہوئی نہ جنگ خدا کے ولی کے بعد
دیکھی یہ آج پہلی لڑائی علی کے بعد

ہر وار پر بدلتا ہے دشتِ وغا کا رنگ
وہ جن کی تھی شجاعتیں آئینہ اب ہیں دنگ
مثلِ علی وہ فوج میں گھس جانا بے درنگ
حملے اُسی طرح کے وہی امتیازِ جنگ
چھوڑا نہ فرق حیدرِ صفدر کی شان میں
اے کاش ذوالفقار بھی ہوتی میان میں

قبضے سے اُن کے نہر ستمگار کیا چھڑائیں
سر جو کہ دے دیں اور نہ پیچھے قدم ہٹائیں
تن تن کے برچھیاں سرِ میداں جگر پہ کھائیں
وہ عزمِ مستقل کہ جگہ چھوڑ کر نہ جائیں
مشہور ہوں جہاں میں دھنی اپنی بات کے
گر قبر بھی بنے تو کنارے فرات کے

اس شان سے ہیں نہر پہ عباسِ ذی حشم
اک ہاتھ میں ہے تیغ تو اک ہاتھ میں علم
رہ رہ کے وار کرتے ہیں گو بانیِ ستم
مثلِ ستونِ کعبہ جمے ہیں مگر قدم
کیں لاکھ کوششیں کہ ہٹا دیں فرات سے
سرکے نہ خضر چشمۂ آبِ حیات سے

کرتا تھا سرکشی جو کوئی خانماں خراب
ہوتی تھی جا کے تیغ اُسی سر پہ کامیاب
آتی تھی تا زمیں وہ اسی واسطے شتاب
پابندِ شرع تھی نہ ملا بہرِ غسل آب
خونِ نجس جو پڑتا تھا پیہم جبین پر
کرتی تھی بار بار تیمم زمین پر

آئی وطن سے شاہِ حجازی کے ساتھ ساتھ
عباس سے دلاور و غازی کے ساتھ ساتھ
تھی رحمدل بھی دست درازی کے ساتھ ساتھ
جب سے بنی رہی یہ نمازی کے ساتھ ساتھ
قائم وہی تھا خم جو پڑا تھا شروع میں
جیسے حبیب ابنِ مظاہر رکوع میں

سیکھے تھے ذوالفقار سے یہ جنگ کے ہنر
ہر وقت شاہِ دیں کی حفاظت پہ تھی نظر
رکھتے تھے ساتھ حضرتِ عباسِ نامور
سچ تو یہ ہے کہ ہوتا ہے صحبت کا بھی اثر
جس وقت حکم ملا گیا تیار ہو گئی
عباس کی طرح سے وفادار ہو گئی

تنہا اِدھر تھی سیکڑوں کے درمیاں اُدھر
رہبر اِدھر تھی راہ زنِ کارواں اُدھر
گر نور پاش اِدھر تھی تو آتش فشاں اُدھر
شانِ بہار اِدھر تھی تو شکلِ خزاں اُدھر
تھے جن کے دل میں خار اُنہیں یہ داغ رہ گیا
باغی تمام کٹ گئے اور باغ رہ گیا

حیرت سے پوچھتے ہیں یہ آپس میں فتنہ گر
کیوں بھائیو وہ موت کی قاصد گئی کدھر
کس کس کے نام اجل کے ہیں خط یہ نہیں خبر
ڈھونڈیں کہاں کہ کام تو کرتی نہیں نظر
قائم ہیں اب نہ ہوش نہ آنکھوں میں نور ہے
تلوار ہے کہ صاعقۂ کوہِ طور ہے

وہ آگ لگ رہی ہے کہ بجھتی نہیں بجائے
دریا تو خوں سے بھر گیا پانی کہاں سے آئے
کچھ ناریوں کو دیکھ لیا ہے قدم جمائے
چلا رہی ہے موت کوئی بھاگنے نہ پائے
میں کاتبِ عمل سے ابھی مل کے آئی ہوں
پروانہ اِن کے واسطے دوزخ کا لائی ہوں

دریائے خوں میں ہے وہ طلاطم کہ الاماں
پھرتا ہے یوں لیے ہوئے رہوارِ خوش عناں
جیسے جنابِ نوح کی کشتی رواں دواں
کہتے ہیں دل ہی دل میں یہ عباسِ نوجواں
سمجھانے پر بھی ڈر ہے نہ تن کا نہ روح کا
یہ امتِ نبی نہیں بیٹا ہے نوح کا

فوجیں غرض بھگا کے علمدارِ نامور
گھوڑے سے اُترے پیار کیا ہاتھ پھیر کر
مشکیزہ کھولا پیاسی سکینہ کا نہر پر
پانی بھرا، کھڑے ہوئے، کی ہر طرف نظر
دیکھا کہ بند ہو گئیں راہیں خیام کی
چھائی ہے چار سمت گھٹا فوجِ شام کی

ہے شور دیکھو بچ کے نہ جائے یہ نوجواں
مشکیزہ چھین لو، کوئی کہتا ہے بدزباں
تانے ہوئے ہیں سامنے بے درد برچھیاں
گوشوں میں ہیں لٹے ہوئے ناوک فگن کماں
آتا نہیں نظر کوئی رستہ دلیر کو
گھیرے ہوئے ہیں نہر پہ روباہ شیر کو

یہ حال دیکھتے ہی جری کو ہوا خیال
اپنی تو فکر کچھ نہیں پانی کا ہے سوال
ممکن ہے راہ دیکھتے ہوں شاہِ خوش خصال
بیٹھے سنبھل کے پُشتِ فرس پر بصد جلال
اس مرتبہ جو غیظ میں حملوں پہ آ گئے
جبریل گو ملک تھے مر تھر تھرا گئے

سر تا قدم ہے لشکرِ خانہ خراب سرخ
ڈھالوں پہ ہے گماں کہ اٹھا ہے سحاب سرخ
موجیں تمام سرخ ہیں اک اک حباب سرخ
ساحل ہے سرخ اور تہِ ساحل ہے آب سرخ
اتنا کبھی نہ خون بہا کائنات میں
جیسے کسی نے آگ لگا دی فرات میں

بڑھ بڑھ کے وار غیظ میں کرتے ہیں دم بہ دم
اِس وقت کا جلال نہیں مرتضیٰ سے کم
ڈوبے ہوئے ہیں خون میں لشکر کے کُل علم
فرما رہے ہیں دیکھ کے شاہنشاہِ امم
طاقت خدا کے فضل سے تم میں علی کی ہے
عباس ہاتھ روک لو امت نبی کی ہے

آخر کچھ انتہا ہے لڑائی کی یا نہیں
باقی زمیں رکھو گے ترائی کی یا نہیں
آواز سن رہے ہو دہائی کی یا نہیں
کچھ فکر بھی ہے اب تمہیں بھائی کی یا نہیں
عباس وقت کم ہے مناسب ہے غور بھی
لکھے ہوئے ہیں فردِ شہادت میں اور بھی

دل میں ہمارے اب نہیں گنجائشِ الم
لاشوں پہ لاشے صبح سے دیکھے ہیں دم بہ دم
بینائی روتے روتے بہت ہو گئی ہے کم
دن چھپ گیا اگر تو کہیں کے رہے نہ ہم
مقتل میں جبکہ روشنی پائی نہ جائیگی
اکبر کی لاش ہم سے اٹھائی نہ جائیگی

مجھ کو یہ فکر ہے کہ قریب آ رہی ہے شام
باقی ابھی کئی ہیں بہتر ہیں تشنہ کام
فہرست رہ نہ جائے شہیدوں کی ناتمام
عباس اب تو جیسے رکے روک لو حسام
بھیا اندھیرا چھا گیا گر کائنات میں
کیونکر چھدے گی گردنِ بے شیر رات میں

عباس تم امام نہیں تم کو کیا خبر
اس امتحاں پہ کب سے ہے اللہ کی نظر
کعبہ بنانے والوں نے تعجیل کی مگر
وہ بات حق نے ٹال دی دنبے کو بھیج کر
تعمیل روک دی گئی اس کارِ نیک کی
قربانی دے رہے تھے براہیم ایک کی

وہ بات بڑھ کے ختم نبوت تک آ گئی
بعدِ نبی حدودِ امامت تک آ گئی
قرآں میں اُس کی صاف وضاحت تک آ گئی
انجامِ کار میری شہادت تک آ گئی
آج امتحان ختم ہے ربِ کریم کا
یہ آخری مقام ہے ذبحِ عظیم کا

بس اتنا وقت چھوڑ دو اے بازوئے امام
ہو جائیں یہ شہید مرے اقربا تمام
پھر اُس کے بعد باقی ہے اک اور خاص کام
دربارِ کبریا میں بصد عجز و احترام
منہ اپنا سوئے عرشِ معلی کیے ہوئے
حق سے کہوں گا لاشۂ اصغر لیے ہوئے

اے امتحان والے مرا امتحان دیکھ
دو دن کے بھوکے پیاسے شہیدوں کی شان دیکھ
تجھ پر نثار ہو گیا کڑیل جوان دیکھ
قربان ہو کے رہ گئی ننھی سی جان دیکھ
یہ بے زباں ہے اور وہ شبیہِ رسول ہے
اب اِن میں کون سا تجھے فدیہ قبول ہے

بندہ ہوں تیرا مجھ کو ہے تیری رضا سے کام
جو کچھ تھا تیرا حکم وہ تعمیل کی تمام
قربانیوں کا سلسلہ ٹوٹا نہ تا بہ شام
جُز صبر و شکر تو نے سنا اور کچھ کلام؟
غلطاں ہے رن میں لاشۂ اکبر زمین پر
مالک مرے، شکن تو نہیں ہے جبین پر

(استاد قمر جلالوی)

No comments:

Post a Comment