Sunday, 24 February 2019

خواجہ غلام فرید

سݨ سمجھ ڑے زاہد جاہد توں
ہن عشق دے اے کلمات عجب

ہے گالھ عجب، ہے حال عجب
ہے چال عجب ہے گھات عجب

ہے ذوق عجب ہے شوق عجب
ہے عین عجب ہے بین عجب

ہے ذکر عجب ہے فکر عجب
ہے نفی عجب اثبات عجب

کل تانگھ  طلب مفقود کرن
سبھ صورت حق مسجود کرن

تھی باذل ترکِ وجود کرن
سِک صوم صلوٰۃ زکوٰۃ عجب

حکمات عجب شبہات عجب
درجات عجب درکات عجب

آیات عجب، طاعات عجب
طاغوت تے لات منات عجب

ہک ذاتوں سہنس ذوات عجب
اِسماء، افعال، صفات عجب

خوش خِضر دے فلسفیات عجب
ظلمات تے آبِ حیات عجب

ٹھپ فقہ اصول عقائد نوں
رکھ ملت  ابن العربی دی

ہے دلڑی غیروں پاک تری
مصباح عجب مشکوٰۃ عجب

حرکات عجب سکنات عجب
اشغال عجب اوقات عجب

اوراد عجب دعوات عجب
ساعات عجب ڈینہہ رات عجب

لا تدركه الابصار عجب
لا يجحه الاشكال عجب

ہے بحر عجب ہے لہر عجب
ہے نہر عجب قطرات عجب

آفات عجب خدشات عجب
صدمات عجب حسرات عجب

واہ جذبتہ من جذبات عجب
راحات عجب لذات عجب

ناسوت عجب ملکوت عجب
جبروت عجب لاہوت عجب

تلبیس عجب تانیس عجب
تقدیس عجب سطوت عجب

اوہام عجب ابہام عجب
اعلام عجب الہام عجب

ھمزات عجب خطرات عجب
لمحات عجب شطحات عجب

ہے قُرب عجب ہے بُعد عجب
ہے وصل عجب ہے فصل عجب

ہے قہر حجاب عقاب عجب
ہے لطف نجات سبات عجب

ابدال عجب اوتاد عجب
اقطاب عجب افراد عجب

تحقیق عجب تصدیق عجب
تقلید عدول ثقات عجب

ہے قلب عجب ہے سِرّ عجب
ہے نفس عجب ہے روح عجب

ہے حرم عجب احرام عجب
حجاج عجب عرفات عجب

جبریل عجب تنزیل عجب
ترتیل عجب تعمیل عجب

ہے ظہر عجب تفسیر عجب
ہے بطن تے تاویلات عجب

ہے کِبر تے فخر غرور عجب
ہے نار عجب ہے نور عجب

ہے نخل عجب ہے طور عجب
ہے موسیٰ تے میقات عجب

آغاز عجب انجام عجب
ہے شام عجب پربھات عجب

ہے شمس تے مد الظل عجب
ہے عکس عجب ذرات عجب

ہے طرح قیام قعود عجب
ہے وضع رکوع سجود عجب

ہے شفع عجب ہے وتر عجب
ارکان عجب رکعات عجب

نفقات عجب صدقات عجب
خیرات عجب حسنات عجب

ہے دنیا اصل احاد عجب
ہے دین الوف مآت عجب

ہے دوزخ طبقات عجب
ہے جنت سبع صفات عجب

عصیان عجب عصات عجب
ابرارتے باقیات عجب

واللیل ہے رمز بطون عجب
والقلم عجب ہے نون عجب

والتین تے والزیتون عجب
والشمس تے والصّافات عجب

من این الیٰ این است عجب 
ماالحاصل فی البین است عجب

من علم الیٰ العین است عجب
اسرار و رموز نکات عجب

گھر بار ڈسے برباراساں
گئے وسر سبھو کم کاراساں

لاچار تے زارنزاراساں
واہ ڈتری برہوں برات عجب

ہک پاسوں ناز نواز عجب
بئے پاسوں عجز نیاز عجب

ہے سوز عجب ہے ساز عجب
ہے گھنڈ عجب ہے جھات عجب

واہ عالم حسن آباد عجب
وچ سوہݨیاں دا بیداد عجب

لٹی دلڑی دی فریاد عجب
مُٹھیاں اکھیاں دی برسات عجب

ہر آن احد ڈوں دھیان دھرو
ہے بے شک دین ایمان ایہو

دل نال فریدؔ دا وعظ سݨو
سو بات دی ہے ہک بات عجب

Sunday, 17 February 2019

سئیں عشرت لغاری صاحب

*کن وچ مندرے ، دل دے گندرے، شکلوں بھولے بھالے ، محض ڈیکھالے*
(کان میں بالیاں، دل میں سازشیں، شکلوں کے بھولے، یہ محض دیکھاوا ہے)

*ہن تاں چُست چالاک چلتر ، منہ تے چپ دے تالے ، محض ڈیکھالے*
(ہیں تو چست چالاک اور چلتر، منہ پر چپ کے تالے؛ محض دیکھاوا ہے)
*کون میندے ہوندے ہن سرخابیں دے پر کالے ؛ محض ڈیکھالے*
(کون مانتا ہے کہ سرخاب کے پر کالے ہوتے ہیں ؛ محض دیکھاوا ہے )

*جیندیں نئیں الویندے عشرت ، مرن دے بعد دوشالے ؛ محض ڈیکھالے*
(عشرت جیتے جی تو بات بھی نہیں کرتے؛ مرنے کے بعد آکر دوشالہ چادریں چڑھاتے ہیں محض دیکھاوا ہے)


سرائیکی شاعر
سئیں عشرت لغاری صاحب

Saturday, 9 February 2019

بیگم اختر



'بیگم اختر کی غزل پر جب فراق کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے'

بیگم اخترتصویر کے کاپی رائٹGOOGLEImage captionگوگل نے ملکۂ غزل بیگم اختر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ ڈوڈل جاری کیا ہے

بیگم اختر کو ملکۂ غزل کہا جاتا ہے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتیں تو پورے 103 سال کی ہوتیں۔ گوگل نے ملکۂ غزل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان پر اپنا ڈوڈل پیش کیا ہے۔

'اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا۔۔۔' جیسی مشہور غزلوں کے علاوہ بیگم اختر کی گائیکی کی وارثت کے مختلف پہلو ہیں۔ بی بی سی کے ریحان فضل نے ان کی دلچسپ کہانی یوں بیان کی ہے۔

٭ ملکۂ غزل بیگم اختر کا صد سالہ جشن

٭ اقبال بانو: 'محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے'

٭ برصغیر میں اردو غزل گائیکی کے 110 سال

اس وراثت کی کہانی کی شروعات گذشتہ صدی کی تیسری دہائی میں اس وقت ہوئی جب بیگم اختر نے کولکتہ میں سٹیج پر پہلی بار اپنا گانا پیش کیا تھا۔

یہ پروگرام صوبہ بہار میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے متاثرین کی امداد کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ اس دن انھیں سننے والوں میں بلبل ہند کے لقب سے معروف سروجنی نائیڈو بھی تھیں۔

وہ ان سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انھوں نے سٹیج کے پیچھے آ کر انھیں نہ صرف مبارکباد دی بلکہ بعد میں ایک کھادی کی ساڑھی بھی انھیں بھجوائی۔

پانچ فٹ تین انچ لمبی بیگم اختر ہائی ہیل کی چپلیں پہننے کی بہت شوقین تھیں۔ یہاں تک کہ وہ گھر میں بھی اونچی ایڑی کی چپلیں پہنا کرتی تھیں۔

گھر پر ان کا لباس مردوں کا کرتہ، لنگی اور اس سے میچ کرتا ہوا سکارف ہوتا تھا۔

بیگم اخترتصویر کے کاپی رائٹSALEEM KIDWAIImage captionبیگم اختر کے ساتھ سازندوں میں منے خاں اکثر شرکت کیا کرتے تھے

بیگم اختر کی شاگردہ شانتی ہیرانند کہتی ہیں کہ رمضان میں بیگم اختر صرف آٹھ یا نو روزے ہی رکھ پاتی تھیں کیونکہ وہ سگریٹ کے بغیر نہیں رہ سکتی تھیں۔

افطار کا وقت ہوتے ہی وہ کھڑے کھڑے ہی نماز پڑھتيں، ایک پیالی چائے پی کی اور فوری طور سگریٹ سلگا لیتیں۔ دو سگریٹ پینے کے بعد وہ دوبارہ آرام سے بیٹھ کر نماز پڑھتيں۔

ان کو قریب سے جاننے والے پروفیسر سلیم قدوائی بتاتے ہیں کہ ایک بار انھوں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا تم سگریٹ پیتے ہو۔ میں نے جواب دیا تھا 'جی ہاں، لیکن آپ کے سامنے نہیں۔'

ایک بار وہ میرے والد کو ہسپتال میں دیکھنے آئیں۔ وہ ان کے لیے پھلوں کا بہت بڑا باسکٹ بھی لائیں۔ پھلوں کے درمیان سگریٹ کے چار پیکٹ بھی رکھے ہوئے تھے۔

انھوں نے دھیرے سے مجھ سے کہا: 'پھل تمہارے والد کے لیے ہیں اور سگریٹ تمہارے لیے۔ہسپتال میں تمہیں کہاں پینے کے لیے مل رہی ہوگی!'

ان کو کھانا بنانے کا بھی بہت شوق تھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کو لحاف میں گانٹھیں لگانے کا ہنر بھی آتا تھا اور تمام لکھنؤ سے لوگ گانٹھے لگوانے کے لیے اپنے لحاف ان کے پاس بھیجا کرتے تھے۔

بیگم اخترتصویر کے کاپی رائٹSHANTI HEERANANDImage captionغزل گائکی میں بیگم اختر پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں

وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ خدا سے ان کا ذاتی رابطہ ہے۔ جب انھیں سنک سوار ہوتی تھی تو وہ کئی دنوں تک عقیدت کے ساتھ قرآن پڑھتي رہتیں لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ قرآن شریف کو ایک طرف رکھ دیتیں۔

جب ان کی شاگردہ ان سے پوچھتيں: 'امی کیا ہوا؟' تو ان کا جواب ہوتا، 'جنگ ہے اللہ میاں سے!'

ایک بار وہ ایک موسیقی کی تقریب میں شرکت کے لیے ممبئی گئیں۔ وہیں اچانک انھوں نے طے کیا کہ وہ حج کرنے مکہ جائیں گی۔

انھوں نے صرف اپنی فیس لی، ٹکٹ خریدا اور وہیں سے مکہ کے لیے روانہ ہو گئیں۔ جب تک وہ مدینہ پہنچی ان کے سارے پیسے ختم ہو چکے تھے۔

انھوں نے زمین پر بیٹھ کر نعت پڑھنا شروع کر دیی۔ لوگوں کی بھیڑ لگ گئی اور لوگوں کو پتہ چل گیا کہ وہ کون ہیں۔

فوری طور مقامی ریڈیو سٹیشن نے انھیں مدعو کیا اور ریڈیو کے لیے ان کی نعت کو ریکارڈ کیا۔

کہا جاتا ہے کہ شاعر جگر مرادآبادی بیگم اختر کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔

بیگم اخترتصویر کے کاپی رائٹSALEEM KIDWAIImage captionایک پروگرام میں سٹیج کی جانب جاتے ہوئے بیگم اختر جہاں بھارت کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو صف اول میں دیکھا جا سکتا ہے

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ انھوں نے فلم ساز ستیہ جیت رائے کی فلم 'جلسہ گھر' میں کلاسیکی گلوکارہ کا کردار ادا کیا تھا۔

اردو کے مشہور شاعر جگر مراد آبادی سے بیگم اختر کی گہری دوستی تھی۔ جگر اور ان کی بیوی اکثر بیگم کے لکھنؤ میں ہیولک روڈ پر واقع مکان میں ٹھہرا کرتے تھے۔

شانتی بتاتی ہیں کہ بیگم اختر جگر سے کھلے عام فلرٹ کیا کرتی تھیں۔

ایک بار مذاق میں انھوں نے جگر سے کہا: 'کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری آپ سے شادی ہو جائے۔ تصور کیجیے کہ ہمارے بچے کیسے ہوں گے۔ میری آواز اور آپ کی شاعری کا زبردست امتزاج!'

اس پر جگر نے زور کا قہقہ لگایا اور یوں جواب دیا: 'لیکن اگر ان کی شکل میری طرح نکلی تو کیا ہو گا!'

بیگم کے دوستوں میں جانے مانے کلاسیک گلوکار کمار گندھرو بھی تھے۔ جب بھی وہ لکھنؤ میں ہوتے تھے وہ اکثر اپنا جھولا کندھے پر ڈالے ان سے ملنے آیا کرتے تھے۔

بیگم اخترتصویر کے کاپی رائٹSALEEM KIDWAIImage captionبیگم اختر شاہد اور سلیم قدوائی کے ساتھ

بیگم اختر نہا کر اپنے ہاتھوں سے ان کے لیے کھانا بنایا کرتی تھیں۔ ایک بار وہ ان سے ملنے ان کے شہر دیواس بھی گئی تھیں۔ تب کمار نے ان کے لیے کھانا بنایا تھا اور دونوں نے مل کر گایا بھی تھا۔

معرف شاعر فراق گورکھپوری بھی ان کے معترف تھے۔ اپنی موت سے کچھ دن پہلے وہ دہلی میں پہاڑ گنج کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ بیگم ان سے ملنے گئیں۔ فراق گہری گہری سانس لے رہے تھے لیکن ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

انھوں نے اپنی ایک غزل بیگم اختر کو دی اور اصرار کیا کہ وہ اسی وقت اسے ان کے لیے گائیں۔

غزل تھی، 'شام غم کچھ اس نگاہیں ناز کی باتیں کرو، بےخدي بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو'، جب بیگم نے وہ غزل گائی تو 'فراق' کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔

بیگم کی مشہور غزل 'اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا۔۔۔' کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔

بیگم اخترتصویر کے کاپی رائٹSALEEM KIDWAIImage captionحج کے سفر پر روانہ ہونے سے قبل بیگم اختر

شانتی بتاتی ہیں کہ ایک بار جب وہ ممبئی سینٹرل سٹیشن سے لکھنؤ کے لیے روانہ ہو رہی تھیں تو ان کو سٹیشن چھوڑنے شکیل بدايوني آئے اور انھوں نے ان کے ہاتھ میں ایک رقعہ تھما دیا۔

رات کو پرانے زمانے کے فرسٹ کلاس میں بیگم نے اپنا ہارمونیم نکالا اور رقعے میں لکھی اس غزل پر کام کرنا شروع کیا۔

بھوپال پہنچتے پہنچتے غزل کو موسیقی اور طرز دیا جا چکا تھا۔ ایک ہفتے کے اندر بیگم اختر نے وہ غزل لکھنؤ ریڈیو سٹیشن سے پیش کی اور پورے بھارت نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

بیگم اختر کی قبرتصویر کے کاپی رائٹATUL CHANDRAImage captionبيگم اختر کئی نسلوں کو دیوانہ بناکر اس جگہ آرام فرما ہیں

ایک بار بیگم اختر فوجیوں کے لیے پروگرام کرنے کشمیر گئیں۔ جب وہ واپس لوٹنے لگیں تو فوج کے افسروں نے انہیں وسکی کی کچھ بوتلیں دیں۔

کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلی شیخ عبداللہ نے سرینگر میں ایک ہاؤس بوٹ پر ان رکنے کا انتظام کروایا تھا۔

جب رات ہوئی تو بیگم نے ویٹر سے کہا کہ وہ ان کا ہارمونیم ہاؤس بوٹ کی چھت پر لے آئیں۔

انھوں نے اپنی ہم سفر ریتا گنگولی سے پوچھا: 'تمہیں برا تو نہیں لگے گا اگر میں تھوڑی سی شراب پی لوں؟' ریتا نے حامی بھر دی۔ ویٹر گلاس اور سوڈا لے آیا۔

ریتا یاد کرتی ہیں اس رات بیگم اختر نے دو گھنٹے تک گایا۔ خاص کر ابن انشا کی وہ غزل گا کر تو انھوں نے ان کو حیران کر دیا۔

'کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا۔۔۔'

بیگم اخترتصویر کے کاپی رائٹBEBUM AKHTARImage captionبیگم اختر کی ایک یادگار تصویر

جب اختري 11 سال کی تھیں تو ان کی ماں مشتري انھیں اپنے ساتھ بریلی کے پیر عزیز میاں کے پاس لے کر گئیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک کاپی تھی جس میں بہت سی غزلیں لکھی ہوئی تھیں۔

پیر نے ایک صفحے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ اسے پڑھو۔ اختری نے بہزاد لکھنوی کی اس غزل کو اونچی آواز میں پڑھا:

'دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔۔۔ ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنا دے'

پیر صاحب نے کہا، اگلی ریکارڈنگ میں اس غزل کو سب سے پہلے گانا۔ اختري کلکتہ پہنچتے ہی اپنی ریکارڈنگ کمپنی کے پاس گئیں اور دیوانہ بنانا ہے۔۔۔گایا۔

سارنگی پر ان کے ساتھ استاد بڑے غلام علی خاں (دونوں پٹیالہ گھرانے سے تھے) تھے۔ سنہ 1925 میں ہندوؤں کے اہم تہوار درگا پوجا کے دوران وہ ریکارڈ ریلیز کیا گیا اور اس نے پورے بنگال میں تہلکہ مچا دیا۔ اس کے بعد سے اختري فیض آبادی عرف بیگم اختر نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔


Immune System