Friday, 29 January 2021


عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں 
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں 
منتظر ہیں دم رخصت کہ یہ مر جائے تو جائیں 
پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں 
سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی 
نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں 
کیا کہا پھر تو کہو ہم نہیں سنتے تیری 
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں 
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں 
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں 
مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے 
تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں 
دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا 
کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں 
ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں 
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں 
زیست سے تنگ ہو اے داغؔ تو جیتے کیوں ہو 
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں

No comments:

Post a Comment