Sunday, 5 December 2010

انجوائے کریں

انجوائے کریں 

وکی لیکس کے بانی جولین اسانش

کوئی وکی لیکس کے ہاتھوں امریکی حکومت کے ڈھائی لاکھ خفیہ دستاویزات کی اشاعت کو سفارتکاری کا نائن الیون قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دوغلے پن کا پردہ فاش سمجھ رہا ہے۔

کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ یہ مسلمان ممالک کو آپس میں لڑانے کی ایک اور سی آئی اے اور یہودیوں کی سازش ہے تو کوئی اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر یکسر مسترد کر رہا ہے۔

لیکن جو کچھ بھی وکی لیکس نے شائع کر کے ایک عارضی سنسنی پھیلائی ہے۔ اگر یہ سب ڈرامہ نہ بھی ہوتا تو کیا فرق پڑتا ؟

کیا دنیا کو پہلی بار یہ پتا چلا ہے کہ سفارتکاری مروجہ اخلاقیات پر نہیں بلکہ مفادات کی بنا پر استوار ہوتی ہے۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جس طرح کارخانے کا سیٹھ مزدوروں کو منقسم رکھنے کے لیے پاکٹ یونین بنواتا ہے ۔اسی طرح بڑی طاقتیں حقیقی مخالفت کا راستہ روکنے کے لیے مختلف حکومتوں، اداروں، تنظیموں اور شخصیات کی شکل میں ایک جعلی اپوزیشن کھڑی کرتی ہیں، انہیں گالیاں دینے اور زہر اگلنے کے لیے مراعات و وسائل دیے جاتے ہیں۔ نورا کشتیاں منعقد کروائی جاتی ہیں۔ تاکہ لوگ اصل اور نقل کے چکر میں ہی پڑے رہیں اور آقاؤں کے سیاسی، سفارتی اور اقتصادی مفادات کی دکان گرم رہے۔

کیا یہ بات وکی لیکس سے پہلے سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ عرب اور ایران کی دشمنی صدام اور خمینی کے دور کی نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں صدیوں تک پھیل ہوئی ہیں۔ کیا یہ بات وکی لیکس نے ہی سمجھائی ہے کہ پاکستان سے سعودی عرب سمیت تیل سے مالامال برادر اسلامی ممالک کا رشتہ برابری کا نہیں بلکہ ایک امیر اور دور پار کے غریب رشتے دار کا بندھن ہے۔ ایسا غریب رشتے دار جو بخشیش پر دعائیں دیتا نہیں تھکتا اور استہزائیہ طعنوں کو پیشانی پے بل لائے بغیر سننے پر مجبور ہوتا ہے۔

کیا ایک عام پاکستانی یہ راز جاننے کے لیے وکی لیکس کا محتاج تھا کہ اس ملک میں طاقت کا سرچشمہ فوج ہے اور 'میوزیکل چئیر' کے دلدادہ جی ایچ کیو کے توسط سے اکثر سیاسی جماعتیں اور شخصیات امریکہ کے بچے جمورے ہیں۔

کیا یہ بات دو ہفتے پہلے ہی سمجھ میں آئی ہے کہ امریکہ دل ہی دل میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کیا سمجھتا ہے ۔لیکن اسٹیبلشمنٹ مسکراتے امریکی عہدیداروں سے پیٹھ تھپتھپوانے کے بعد اس فورمین یا کمدار کی طرح کُپا ہو جاتی ہے جس کے منہ سے سوائے اس کے کوئی جملہ نہیں نکلتا کہ سر آپ بس حکم کریں باقی کام میرا ہے۔ سر بس ذرا سی پگھار اور بونس بڑھا دیں۔ سر مزدور بے چین ہو رہے ہیں اور اپنا گزارہ بھی ان دنوں مشکل سے ہو رہا ہے۔

جس طرح بولی وڈ اور لولی وڈ میں پچھلے ساٹھ برس سے ایک ہی کہانی نام اور کردار بدل بدل کر چمکانے کی ملی جلی کوشش ہو رہی ہے۔ اسی طرح وکی لیکس بھی بین الاقوامی مفادات کی گھٹیا سفاک کہانی کو نئے نام سے پیش کرنے کا ایک اور مظاہرہ ہے۔ پہلے یہی کہانیاں واقعہ گزر جانے کے پچیس برس بعد افشا ہوتی تھیں۔ اب فلم ساز کو بھی تیز رفتار مارکیٹ کے ساتھ چلنا پڑ رہا ہے۔

وکی لیکس سے آپ بھلے لطف اندوز ہوتے رہیے۔ لیکن جون ایلیا کا یہ شعر بھی یاد رکھئے کہ

میں اپنے جرم کا اقرار کرکے

کچھ اور ہے جسے چھپا گیا ہوں


No comments:

Post a Comment