وطنيت
)يعني وطن بحيثيت ايک سياسي تصور کے(
اس دور ميں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقي نے بنا کي روش لطف و ستم اور
مسلم نے بھي تعمير کيا اپنا حرم اور
تہذيب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
جو پيرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
يہ بت کہ تراشيدہء تہذيب نوي ہے
غارت گر کاشانہء دين نبوي ہے
بازو ترا توحيد کي قوت سے قوي ہے
اسلام ترا ديس ہے ، تو مصطفوي ہے
نظارہ ديرينہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوي خاک ميں اس بت کو ملا دے !
ہو قيد مقامي تو نتيجہ ہے تباہي
رہ بحر ميں آزاد وطن صورت ماہي
ہے ترک وطن سنت محبوب الہي
دے تو بھي نبوت کي صداقت پہ گواہي
گفتار سياست ميں وطن اور ہي کچھ ہے
ارشاد نبوت ميں وطن اور ہي کچھ ہے
اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسي سے
تسخير ہے مقصود تجارت تو اسي سے
خالي ہے صداقت سے سياست تو اسي سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسي سے
اقوام ميں مخلوق خدا بٹتي ہے اس سے
قوميت اسلام کے جڑ کٹتي ہے اس سے
No comments:
Post a Comment