کربلا ! ہے تجھ سے کتنی دور وہ نہر فرات
جس کے پانی سے رہی محروم مظلوموں کی ذات
تشنگی جس سے بجھاتی تھی سپاہ ے بد صفات
موت تھی سراب جس سے اور پیاسی تھی حیات
تر نہ اپنے لب کیے اک صاحب احساس نیں
جس کے ساحل پر تیمم کر لیا عبّاس نیں
آج تک پھیلی ہے تجھ میں کیسی زندہ روشنی
رو کش اوج فلک ہے روضہ سبط نبی
ایک اک ذرے میں لہریں لے رہی ہیں زندگی
استراحت کر رہی ہے تجھ میں اولاد ے علی
دامن دریا میں خاک آستیں جھاڑے ہوۓ
شیر اک ساحل پہ سوتا ہے علم گھاڑے ہوۓ
کچھ جوانان قریش ، چند بچے، بیبیاں
جنگ کا سامان تھا نہ کوئی خونچکاں
دین و ایماں کی حفاظت صلح کل ورد زباں
پشت پر قبر محمد، سامنے باغ جناں
ایک پیغام ے محبت امن عالم گیر کا
تھا علم میں ایک پھریرا چادر ے تطہیر کا
صبا اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment