ایک شہزادی
ایک شہزادی کا لوگوں کے دلوں پہ راج تھا
اسکے سر پہ باپ کی قربانیوں کا تاج تھا
غم میں ڈوبا کل تھا اس کا ، دکھ میں ڈوبا آج تھا
اس کے خون سے سرخرو ہو ، وقت بھی محتاج تھا
اے بہارو بال کھولو گریہ و زاری کرو
اے مرے اشکو ذرا گرنے کی تیاری کرو
خواب ہم سب کے تھے اور وہ خواب کی تعبیر تھی
بے زبان محنت کشوں کے عزم کی تاثیر تھی
جس نیں سب کو ایک کر رکھا تھا وہ زنجیر تھی
وہ کوئی عورت نہیں تھی قوم کی تقدیر تھی
ایک پل نیں سب کے دل کو پارہ پارہ کر دیا
وہ زمین کا چاند تھی عنمبر کا تارا کر دیا
وہ غریبوں کے لیے امید کی تنویر تھی
کاتب تقدیر کی لکھی ہوئی تحریر تھی
دشمن حق کیلئے ترکش سے نکلا تیر تھی
حوصلے میں ہو با ہو وہ باپ کی تصویر تھی
پھول سے ماتھے پہ اپنے زخم گہرا کھایے گی
کیا خبر تھی اس کو دشمن کی نظر لگ جایے گی
تھی بلوچوں کی بہو ، مہران کی بیٹی تھی وہ
جسم میں پنجاب کے بن کے لہو بہتی تھی وہ
کس طرح میں یہ بتلاؤں تجھے کیسی تھی وہ
ہر کسی کی دوست تھی ہر ایک کی ساتھی تھی وہ
آس تھی کشمیر کی اور آرزو پختون کی
دے سکے گا کیا کبھی قیمت کوئی اس خوں کی
ہجرتوں کے سایے میں کیا نالہ شبنم نہ تھا
باپ کا غم بھائیوں کے دکھ سہے کیا کم نہ تھا
ماں کی بیماری بھی کیا تقدیر کا ماتم نہ تھا
کیا کوئی ایسا بھی غم ہے جو اس کا غم نہ تھا
شخصیت میں وہ اثر تھا جس کے تھے سب ہی اسیر
درحقیقت وہ کروڑوں کے لیے تھی بے نظیر
وہ میری تاریکیوں میں پھوٹتی صبح سحر
وہ مرے دل کی تمناؤں کی دنیا کا قمر
وہ زمانے کی دہکتی دھوپ میں پھیلا شجر
وہ میری دھرتی کی صدیوں کی دعاؤں کا ثمر
اس کے سر پہ رکھ دیا ہے وقت نیں کرنوں کا تاج
رہتی دنیا تک رہے گا دل میں شہزادی کا راج
No comments:
Post a Comment