زمین کی پستیوں پہ رہ کر
فلک کا رفت نشین بھی تھا
جو بے یقینی کی تیرگی میں
اک آفتاب یقین بھی تھا
وہ ایسا امی
جو علم و عرفان و آگہی کی کتاب لایا
شرافتوں کا نساب لایا
نجابتوں کا حساب لایا
جو فکر کے بحر منجمد میں
تنوج و انقلاب لیا
وہ جس نیں دولت کا سحر توڑا
بلال کو رہبر بنایا
حصار ظلم و ستم گرایا
سلامتی کا نگر بنایا
غرور و نخوت کو بے حقیقت
تو عجز کو معتبر بنایا
اسی کا صدقہ کہ سر زمین عرب کا چہرہ ہے رشک گلشن
فضائیں نغمے سنا رہی ہیں زمین سونا اگل رہی ہے
اسی (ص) کا صدقہ کہ ضمیروں کی ایک جمعیت
زر و جوہر میں پل رہی ہے
لرزتے ہاتھوں میں جام و مینا
نجس زبانوں پہ نام اسکا
عمل ابوجہل و ابرہا کا
نمائشی احترم اسکا
غلیظ جسموں پہ صاف کپڑے
شبیہ اسکے لباس کی ہیں
یہ زندہ لاشیں
مسرتوں کی جبیں پہ تصویر یاس کی ہیں
جو اس کے مسلک سے منحرف ہیں
وہ پاسبان حرام بنے ہیں
جو ساری ملت کے حق کےغاصب ہیں
آج اہل کرم بنے ہیں
عاشورکاظمی
No comments:
Post a Comment