میں نیں اب تک تمھارے قصیدے لکھے
اور آج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
اپنے شعروں کی حرمت سے ہوں منفیل
اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں
اپنے دل گیر پیاروں سے شرمندہ ہوں
جب مرے دل ذرا ے خاک پر
سایا غیر یا دست ے دشمن پڑا
جب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوۓ
سرحدوں پر میری جب کبھی رن پڑا
میرا خونی جگر تھا کہ حرف ہنر
نظر میں نیں کیا مجھ سے جو بن پڑا
آنسوؤں سے تمھیں الودایں کہیں
رزم گاہوں میں جب بھی پکارا تمھیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
ہارنے میں بھی جی سے نہ اتارا تمھیں
تم نیں جان کے ایوض ابرو بیچ دی
ہم نیں پھر بھی کیا گوارا تمھیں
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خون منہ پہ ملنے کو تم آیے تھے
مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آے تھے
ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
ان کی نسلیں بدلنے کو تم آے تھے
اس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہوا
شب گی خواب تم سے پریشان رہے
کس جلال و رعونت سے وارد ہوۓ
کس خجالت سے تم سو زنداں گیے
تیغ در دست و کف در وہاں آے تھے
طوق در گردنوں پا بجولاں آے تھے
جیسے برطانوی راج میں گورکھے
وحشتوں کے چلن عام ان کے بھی تھے
جیسے سفاک گورے تھے ویتنام میں
حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے
تم بھی آج ان سے کچھ مختلف تو نہیں
رائفلیں ، وردیاں ، نام ان کے بھی تھے
پھر بھی میں نیں تمھیں بے خطا ہی کہا
خلقت ے شہر کی دل دہی کے لئے
گو مرے شعر زخموں کے مرہم نہ تھے
پھر بھی ایک سعی چارہ گری کے لیے
اپنے بے آس لوگوں کے جی کے لیے
یاد ہونگے تمھیں وہ ایام بھی
تم اسیری سے لوٹ کر جب آے تھے
ہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑے
اپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لاۓ تھے
اپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کر
تم پر توقیر کے پھول برساے تھے
جن کے جبڑوں کو اپنوں کا خون لگ گیا
ظلم کی سب حدیں پاٹنے آگیے
مرگ بنگال کے بعد بولان میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آگیے
آج سرحد سے پنجاب ، مہران تک
تم نیں مقتل سجاے ہیں کیوں غازیو؟
اتنی غارت گری کس کے ایمان پر ہے ؟
کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو ؟
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے ؟
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خون غازیو ؟
کیا خبر تھی کہ ے شپرک زدگان
تم ملامت بنو گے شب تار کی
کل بھی غاصب کے تم تخت پردار تھے
آج بھی پاسداری ہے دربار کی
ایک آمر کی دستار کے واسطے
سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی
تم نیں دیکھے ہیں جمہور کے قافلے
ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں
پیڑیوں پر جمی پیڑیاں خون کی
کہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیں
کل تمھارے لئے پیار سینوں میں تھا
اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کہ ہیں
آج شاعر پہ یہ قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
خوں اترا تمہارا تو ثابت ہوا
پیشہ ور قاتل ہو ، تم سپاہی نہیں
اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہییں
اب فقط مسلہ تاج شاہی نہیں
By Faraz Ahmed Faraz Sb
No comments:
Post a Comment