٢٧ دسمبر بینظیر کی برسی ہے اور اس سال یہ دن اس لئے بھی خاص تھا کہ اس دن پاکستان کی سیاست میں ایک اور بھٹو نیں سیاست کا اغاز کیا ہے . عوام خاص طور پر پی پی پی کے جیالوں ، پی پی پی کے مخالفوں ، اور میڈیا کو اس تقریر اور لانچ کا بے صابری سے انتظار تھا . ہر کوئی دیکھنا چاہتا تھا کہ اخر پی پی پی کیسے اپنے نیے لیڈر
کو میدان میں اتارتی ہے
میں انتظار کر رہا تھا کہ پہلے میڈیا پر بحث ختم ہو تو میں بھی کچھ اس پر لکھوں. تقریر میں براہ راست نہ سن سکا کام پر تھا . لیکن واپس اتے ہی مکمل ریکارڈنگ سنی. میرا خیال یہ تھا تقریر بہت اچھی تھی، اچھی لکھی ہوئی تھی، ادائیگی بہت اچھی تھی، اردو امید سے بہت زیادہ اچھی تھی. بلاول کی شخصیت کا بھی اچھا اثر تھا . پی پی پی کے جیالوں کے دل میں موجود تمام پہلوں کا ذکر تھا ، اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر تھا . ناکامیوں کی وجوہات کا ذکر تھا ان تمام طاقتوروں کا اشاروں کنایوں میں ذکر تھا جن کیوجہ سے حکومت اس قدر کامیاب نہیں ہوسکی جس کی لوگوں کو امید تھی . بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، ائینی ترامیم ، صوبائی خودمختیاری ، عدلیہ کی غیر ضروری معاملات میں مداخلت، سیلابوں کے بعد آبادکاری ، عالمی کسادبازاری کے باوجود ملکی معیشت کی خود کفالت ، دشت گردی کے خلاف کھلا مواقف اور جنگ سمیت سب کامیابیوں کا ذکر تھا
پر جلسے میں موجود عوام میں وہ جوش یا ولولہ نظر نہیں آیا جو بینظر یا ذولفقار بھٹو کا خاصہ تھا. مخالفوں پر حملے بھی شدید نہ تھے
جہاں تک میڈیا میں اس تقریر پر رد عمل کا ذکر ہے تو وہ تو ہم گنہگاروں کو تقریر سے پہلے ہی پتا تھا کون اس میں سے صرف خامیاں ہی خامیاں ڈھونڈے گا. پر یہ بات اچھی رہی کہ سب نیں بلاول کی تقریر کی صلاحیت کو ضرور تعریف سے یاد کیا. کچھ لوگوں نیں تو اس کی مخالفت کرنی ہے کرنی ہے. کیوں کہ ان کی پی پی پی اور ان کے لیڈروں سے نظریاتی جنگ ہے . چاہے بھٹوز انہیں اپنے خون کا بھی نذرانہ پیش کریں انھوں نیں پھر بھی اس میں کوئی نہ کوئی کمی کا پہلو ڈھونڈھ لینا ہے
لیکن ملکی سیاست کےلئے بہت اچھا ہے کہ ایسا لیڈر میدان سیاست میں آیا ہے جو اپنے عصر سے ہم آہنگ ہے جسے یہ پتا ہے دنیا میں آزادی ،جمہوریت، حقوق ے نسواں ، اور معاشرتی انصاف کی کیا اہمیت ہے اور یہ سب کچھ کتنا
ضروری ہے. وہ دنیا کے ساتھ بات کرسکتا ہے ان کی بات سمجھ سکتا ہے اور انہیں اپنی بات سمجھا سکتا ہے
لیکن اس ملک میں ابھی بھی کچھ طاقتور حلقے ہیں جو یہ ہرگز ہرگز نہیں چاہتے کہ کوئی بھٹو اس ملک کو لیڈ کرے کیوں کہ ان کو چاہیے ہیں ایسے لیڈر جو ان کے اشارہ ابرو کے منتظر رہیں اور اسے دیکھ کر فیصلے کریں . اور ایسا کرنا بھٹوز کی سرشت میں نہیں
اسی لئے کھیل ابھی جاری ہے
No comments:
Post a Comment