Monday, 5 December 2016
Saturday, 3 December 2016
اسیر شہزادی
سنگدل رواجوں کی یہ عمارت کہنہ
اپنے آپ پر نادم اپنے آپ سے لرزاں
جس کا زرہ زرہ ہے خود شکستگی ساماں
یہ خمیدہ دیواریں یہ جھکی ہوئی کڑیاں
سنگدل رواجوں کے خستہ حال زنداں میں،
یہ اسیر شہزادی
جبروخوف کی دختر، واہموں کی پروردہ
مصلحت سے ہم بستر، ضعف و یاس کی مادر
سنگدل رواجوں کے خستہ حال زنداں میں
ایک صدا مستانہ، ایک رقص رندانہ
یہ عمارت کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی جس کا جسم شعلہ ہے
جس کی روح آہن ہے، جس کا نطق گویا ہے
بازوؤں میں قوت ہے، انگلیوں میں صناعی
یہ اسیر شہزادی جب نجات پاے گی
سانس لے گی دارانہ، محو رقص رندانہ
اپنی ذات پاے گی!!
فہمیدہ ریاض
Tuesday, 22 November 2016
ہمارے اور انکے باسٹرڈز
ہمارے اور انکے باسٹرڈز !
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
ہمیں انیس سو اٹھاسی سے اب تک بتایا جا رہا ہے کہ مرحومہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری اور ان کے حوالی موالی اس ملک کا سب سے کرپٹ سیاسی ٹولہ تھا اور ہے۔
مگر یہ کوئی نہیں بتا رہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساڑھے چار برس چھوڑ کر یہ کرپٹ ٹولہ تیسری بار کیسے اقتدار میں آگیا۔مسٹر ٹین پرسنٹ کس طرح پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے مومنینِ کرام، حاجی صاحبان اور متقی و پرہیزگار ارکان کی اکثریت کے ووٹ سے پاکستان کے صدر بن گئے۔یا تو زرداری کو صدر بنانے والے نیند میں چل رہے تھے یا پھر اتنے بھولے اور معصوم تھے کہ انہوں نے یقین کرلیا کہ جسے وہ صدر منتخب کر رہے ہیں اس کی شکل تو زرداری جیسی ہے لیکن اس مرتبہ اس کے جسم میں ایک معصوم نومولود کی روح حلول کرگئی ہے۔
جس طرح ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔اسی اصول کی بنیاد پر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آدمی اپنے ووٹ سے پہچانا جاتا ہے۔اگر کروڑوں عام اور ان کے منتخب کردہ پارلیمانی زرداریوں نے ووٹ دے کر آصف علی اور ان کی جماعت کو پانچ برس کے لیے اقتدار دے دیا تو اس میں افسوس اور واویلا کاہے کو ؟
کیا آپ نے کبھی کسی ایسے ووٹر کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا قانون بنایا جس پر دودھ میں پانی، پٹرول میں مٹی کا تیل، مرچوں میں سرخ اینٹ کا چورا، چائے میں لکڑی کا برادہ ، منرل واٹر کی بوتل میں نلکے کا پانی ملانے، بلیک مارکیٹنگ کرنے اور دو نمبر دوا، جعلی کھاد، جعلی بیج اور کاغذی سڑک بنانے کا الزام ثابت ہوجائے۔
کیا آپ نے کبھی ایسے شخص کو ووٹ دینے سے انکار کیا جس کی شہرت ہو کہ وہ بینکوں کے قرضے ہڑپ کرگیا ، ٹیکس چوری میں مسلسل مبتلا ہے، جس نے بدمعاشوں، ڈاکووں ، قاتلوں، چوروں اور املاک پر قبضہ کرنے والے پیشہ وروں کا گروہ پال رکھا ہے۔جو عصمت دری کرنے والوں کی ضمانتیں کراتا ہے۔جو جھگڑے کے تصفیے میں نوعمر بچیوں کو بطور ہرجانہ دینے کے فیصلے کرتا ہے۔
کیا آپ نے کبھی ایسے شخص کو ووٹ دینے سے انکار کیا جس کی شہرت ہو کہ وہ بینکوں کے قرضے ہڑپ کرگیا ، ٹیکس چوری میں مسلسل مبتلا ہے، جس نے بدمعاشوں، ڈاکووں ، قاتلوں، چوروں اور املاک پر قبضہ کرنے والے پیشہ وروں کا گروہ پال رکھا ہے۔جو عصمت دری کرنے والوں کی ضمانتیں کراتا ہے۔جو جھگڑے کے تصفیے میں نوعمر بچیوں کو بطور ہرجانہ دینے کے فیصلے کرتا ہے۔
کیا آپ نے کبھی سیاست میں آنے والے کسی ایسے ریٹائرڈ ایماندار بیوروکریٹ، جج یا جرنیل کو قومی و صوبائی اسمبلی کا رکن یا ضلعی ناظم منتخب کرنے کی کوشش کی جس کے پاس ایک سے زائد گھر، گاڑی ، بینک بیلنس ، سینکڑوں ایکڑ مراعاتی زمین ، کھاد یا گیس کا مراعاتی کوٹہ یا کسی غیرملکی بینک میں اکاؤنٹ نہ ہو۔
کیا آپ میں سے کسی نے کبھی یہ مطالبہ کیا کہ ہر حاضر سروس جرنیل، جج، بیوروکریٹ یا سیاستداں، جب بھی اعلیٰ عہدہ یا ترقی پائے تو اپنی منقولہ و غیر منقولہ املاک اور کھاتوں کا گوشوارہ پیش کرے۔اور ان میں سے ہر سال بیس فیصد گوشوارے بذریعہ قرعہ اندازی مکمل چھان بین کے لیے منتخب کیے جائیں تاکہ باقی اسی فیصد اگلے گوشوارے میں غلط بیانی نہ کرسکیں۔
یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ووٹر کے گریبان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن اسے بوجوہ نظر نہیں آتے۔مگر ان گذارشات کا یہ مطلب نہیں کہ گند صاف کرنے کا آغاز ہی نہ ہو۔چلئے آپ مشرف، شوکت، شجاعت سے آغاز نہ کرسکے نہ سہی، زرداری گیلانی سے ہی سہی۔لیکن ان ووٹروں کا بھی تو کچھ کیجئے جو موقع پاتے ہی پھر ایسے لوگوں کو کرسی پر بٹھا دیتے ہیں۔
ایک بات بتاؤں !
براعظم وسطیٰ امریکہ کے ملک نکاراگوا میں سموزا خاندان سنہ انیس سو تیس سے انیس سو اناسی تک مسلسل برسرِ اقتدار رہا۔ کسی نے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ حضور نکاراگوا میں جمہوریت کا سورج کب نکلے گا اور وہاں کے لوگوں کو سموزا خاندان کی حرم زدگیوں سے کب چھٹکارا ملےگا۔روزویلٹ نے کہا یہ سچ ہے کہ سموزا حرامزادے ہیں۔لیکن وہ ہمارے حرامزادے ہیں۔۔۔
بقولِ شیخ سعدی اصفہان کے بھیڑئیے سے اصفہان کا کتا ہی نمٹ سکتا ہے۔جب تک اسٹیبلشمنٹ اپنے حرام زادوں کو تحفظ دیتی رہے گی۔عوام اپنے حرامزادے ان کے مقابل لاتے رہیں گے ۔۔۔۔
Monday, 21 November 2016
Sunday, 20 November 2016
Saturday, 19 November 2016
Monday, 14 November 2016
Sunday, 9 October 2016
Thursday, 7 July 2016
سکھ چج کوئی یار مناون دا
Tuesday, 28 June 2016
Wednesday, 22 June 2016
RIP Amjad Farid Sabri
قسمت میں مری چین سے جینا لکھ دے
ڈوبے نہ کبھی میرا سفینہ لکھ دے
جنت بھی گوارا ہے مگر میرے لیے
اے کاتب تقدیر ! مدینہ لکھ دے
تاجدارِ حرم ! ہو نگاہ ِ کرم
ہو کرم ! ہو نگاہ کرم ۔
چشم رحمت بکشاء سوئے مننداز نظر
اے قرشی لقب ، ہاشمی و مطلبی
تاجدار حرم ۔تاجدار حرم
کیا تم سے کہوں ۔اے رب کے کنور
تم جانت ہو من کی بتیاں
در فرقت اے امی لقب
کاٹے نہ کٹک ہیں ابرتیاں
توری سدھ بدھ سب بسری
کب تک رہے گی بے خبری
داغ بکگن دزدیدہ نظر
کبھی سن بھی تو لو ہمری بتیاں
تاجدار حرمﷺ
نگاہ کرم ----------- ہو نگاہِ کرم
ہم غریبوں کے دل بھی دن سنور جائیں گے
والی بے کساں
حامی بے کساں
کیا کہے گا جہاں
آپ کے در سے خالی اگر جائیں گے
تاجدار حرم
ہو نگاہ کرم
کوئی اپنا نہیں ،غم کے مارے ہیں ہم
آپ کے در پہ فریاد لائے ہیں ہم
ہو نگاہ کرم
ہو نگاہ کر م
ورنہ چو کھٹ پر آپ کا نام
لے لے کر مرجائیں گے
خوف طوفان ہے
بجلیوں کا ہے ڈر
سخت مشکل ہے آقا
کدھر جائیں گے ہم
آپ ہی نہ لیں گے
گر ہماری خبر
تاجدار حرم
ہو نگاہ کرم
کہنا صبا حضور سے
کہتا ہے اک غلام
بس اک نظر ہو
اک نظر کا سلام
یا مصطفیﷺ ٖ
یا مجتبی ﷺ
ارحم لنا
بے چارلنا
دست ہما
داماں توئی
پرساں توئی
من عاصیم
من عاجزم
من بے کسم
حال مرا
یا شافعی روز جزا
پرساں توئی
اے مشکل زم مرفشاں
پیکے نسیم صبح دم
اے چارہ گر انساں نفس
اے مول سے بیمار ہم
اے قاسم فرخندہ پے
تجھ کو اسی گل کی قسم
ان الدیارَ الصباء
بلغ السلام روضہ تر
فی النبیﷺ المحترم
مہ کشاں آؤ !مدینے چلیں
مدینے چلیں
اسی مہینے چلیں
حج کے مہینے چلیں
چلو مدینے چلیں
دکھ رنج و الم سب چھٹتے ہیں
حسنین کے صدقے سب بٹتے ہیں
تجلیوں کی عجب فضا ہے مدینے میں
نمازِ عشق ادا کریں گے مدینے میں
غم حیات نہ خوب قضا مدینے میں
ادھر ادھر نہ بھٹکتے پھرو خدا کے لیے
براہ راست ہے راہ ِ خدا مدینے میں
مہ کشا آؤ مدینے چلو
دست ساقی کوثر سے پینے چلیں
یاد رکھو اگر !
اٹھ گئی اک نظر
جتنے خالی ہیں
سب جام بھر جائیں گے
تاجدار حرم
نگاہ کرم
Tuesday, 21 June 2016
Friday, 17 June 2016
Wednesday, 15 June 2016
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں
ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے
آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں
ان دنوں تم بہت شریرہوئے
ایسی ہستی عدم میں داخل ہے
نَے جواں ہم ،نہ طفلِ شیر ہوئے
ایک دم تھی نمود بود اپنی
یا سفیدی کی، یا اخیر ہوئے
یعنی مانندِ صبح دنیا میں
ہم جو پیدا ہوئے سو پِیر ہوئے
مت مل اہلِ دوَل کے لڑکوں سے
میر جی ان سے مل فقیر ہوئے
۔۔۔ میر تقی میر
Saturday, 27 February 2016
-
زے حال مسکین مَکُن برنجش ، بہ حال ے ہجراں بیچارہ دل ہے [مسکین کے حال پر ، رنجش نا کر ، ہجراں کی وجہ سے بچارا دل ہے ] سنائی دیتی ہے جس کی دھ...
-
تم حیا - و -شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو ہم نے ننگے جسموں کو ملبو س -ے -حیا دیکھا ہے ہم نے دیکھے ہیں احرام میں لپٹے کئی ابلیس ...