Sunday, 29 November 2015

گزرا ہوں جس طرف سے بھی پتھر لگے مجھے
ایسے بھی کیا تھے لعل و جواہر لگے مجھے
لو ہو چکی شفا کہ مداوائے دردِ دل
اب تیری دسترس سے بھی باہر لگے مجھے
ترسا دیا ہے ابرِ گریزاں نے اس قدر
برسے جو بوند بھی تو سمندر لگے مجھے
تھامے رہو گے جسم کی دیوار تابکے
یہ زلزلہ تو روح کے اندر لگے مجھے
گر روشنی یہی ہے تو اے بدنصیب شہر
اب تیرگی ہی تیرا مقدر لگے مجھے
منزل کہاں کی زادِ سفر کو بچائیو!
اب رہزنوں کی نیّتِ رہبر لگے مجھے
وہ مطمئن کہ سب کی زباں کاٹ دی گئی
ایسی خموشیوں سے مگر ڈر لگے مجھے
وہ قحطِ حرفِ حق ہے کہ اس عہد میں فراز
خود سا گنہگار پیمبر لگے مجھے

No comments:

Post a Comment

کیمو تھراپی کے دوران مریضوں کو اپنا خیال کیسے رکھنا چاہیے؟

کیمو تھراپی کے دوران مریضوں کو اپنا خیال کیسے رکھنا چاہیے؟ کیموتھراپی ایک مشکل سفر ہو سکتا ہے، اور اس دوران اپنا اچھی طرح خیال رکھنا ضمنی اث...