اسیر کافلہ دربار شام جب آیا
یزید زینب کبریٰ سے یوں ہوا گویا
لو آج راز " وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ "کا کھلا
کہ باوقار ہوا کون ؛کون ہوا رسوا
او بدکلام ٹھہر؛ بولی زینب کبریٰ
نشے میں دھت ہے ،یہ آیت پوری سب کو سنا
وہ ہاتھ خیر کا ہے کون؟ بھلا مجھ کو بتا
کے جس سے عزت و ذلت کو بانٹا ہے خدا
وہ ہاتھ تو ہے کہ ہم ؛اہل بیت اس کے ؟
ہم ہی ہیں عزت و ذلت کے بانٹنے والے
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
زینبی لہجے میں آواز علی گونج اٹھی
ظلم و جبر کے دربار پہ بجلی سی گری
لائک حمد ہے جس نیں ہمیں عزت بخشی
سورت روم سے شہزاری نیں آیت یہ پڑھی
جو برے تھے سو برا ان کا انجام ہوا
جس نیں قرآن کو بھلایا وہ ناکام ہوا
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
کیا کہا تو نیں ہمیں حق سے رسوائی ملی
ہم یہ کہتے ہیں ہمیں عزت و سچائی ملی
ہم کو قرآن ملا رب کی شناسائی ملی
میرے پیاروں کو سناں پر بھی پذیرائی ملی
ابن مرجانا !تیرے جبہ و دستار تلک
کربلا آ گئی اب شام کے دربار تلک
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
اۓ میرے بھائی کے قاتل ،ہوس زر کے غلام
امتحان یہ بھی ہے کہ میں اور کروں تجھ سے کلام
یوں مخاطب ہوں کے دل میں ہے میرے
مجھ کو دینا ہے حسین ابن علی کا پیغام
کرکے تضحیک نبی تجھ کو مزہ آتا ہے
انتقام احد و بدر پہ تو اتراتا ہے
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
اۓ یزید ستم ایجاد بہت شاد ہے تو
قید کرکے ہمیں تو سمجھا ہے کہ آزاد ہے تو
یہ تیری خام خیالی ہے کہ آباد ہے تو
نسل در نسل سدا کیلئے برباد ہے تو
فیصلہ رب کا ہے مہلت ہے سنبھل جانے کی
ڈھیل دی جاتی ہے ظالم کو ستم ڈھانے کی
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
آج کس رسالت کا خوں پیتا ہے
کاٹ کے باغ رسالت تو خوش ہوتا ہے
چیختا پھرتا ہے تو بدر کا یہ بدلہ ہے
مجھ کی حیرت نیں ہندہ کا ہی تو بیٹا ہے
ہوگا معلوم شقاوت کا نیتیحہ اس دن
بدلہ یہ کیا ہے ؛لیا جایےگا بدلہ اس دن
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
کر دیا قتل ہمیں تو نیں غلط سوچا ہے
گوشت اپنا ہی چبایا ہے بدن نوچا ہے
کیا خبر تجھ کو کہ ہم لوگوں کا رتبہ کیا ہے
آل عمران میں الله کا یہ وعدہ ہے
شہدا صورت قرآن سدا زندہ ہیں
وہ تو وہ ان کے محبان سدا زندہ ہیں
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
موہ حیرت ہوں کہ جنہیں رب نیں سرفراز کیا
انہیں قرآن دیا اور یدک الخیر کہا
آہ ان باغ رسالت کی کلیوں کو مسلا
آستینوں سے تمہاری ہے لہو ان کا بہا
پاک و پاکیزہ بنایے تھے جو رب نیں بدن
آج صحرا میں پڑے ہیں وہی بےگور و کفن
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
آزما لے ستم ایجاد ستم کے حربے
دیکھ باقی تیرے دل میں کوئی حسرت نہ رہے
رہ گیا ہو جو ستم تو وہ بھی کرلے
جیت کے ہار گی تیری حکومت ہم سے
فکر شبیر تو پھیلے گی محمد کی قسم
یہ تیرے بس میں نہیں مالک و مختار ہیں ہم
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
حافظ نہج البلاغہ کا تھا وہ رعب و جلال
موت کی خاموشی جیسا ہوا دربار کا حال
جاگ اٹھیں بیبیاں جو غم سے مسلسل تھی نڈھال
بھرے دربار سے مظلوم خطیبہ کا سوال
کلمہ جس کا پڑھا اس کا جگر کاٹ لیا
اپنے محسن کے نواسے کا ہی سر کاٹ کیا
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
تم تھے نو لاکھ درندے وہ بہتر انسان
ان بہتر میں تھا اصغر سا اک تشنہ دہان
ایسے معصوم قسم کھاتا ہے جن کی قران
ہاۓ ان پیاسوں کے حلقوں پہ خنجر تھا رواں
تم یہ کہتے ہو پہ جنگ حسین آیا تھا
بیٹیوں بہنوں کو پھر ساتھ میں کیوں لایا تھا
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
اے یزید آج کیوں نہ تجھ پہ فلک ٹوٹ پڑے
تو نیں وہ ظلم کیے جس سے محمد روے
ہاۓ ناموس نبی کوچہ و بازار پھرے
در و دربار سجے کوٹھوں سے پتھر برسے
شامیو! ہم پہ کیا اب کہ غضب کرتے ہو
چھوٹی زہرہ کو کنیزی میں طلب کرتے ہو
یدک الخیر بھی ہم ؛ رب کعبہ کی قسم
انہی ہاتھوں میں رسن ؛ سر دربار ستم
ختم تقریر ہوئی ؛ حشر خاموش اٹھا
یا علی آپ کی بیٹی کا عجب خطبہ تھا
مردہ دربار پہ چھائی تھی خطبہ کی صدا
بچھ گیی سرور و ریحان وہاں فرش عزا
بھائی کہ سر پہ نظر زینب کبریٰ کی پڑی
جھک گئی بالی سکینہ پہ علی کی بیٹی