Saturday 3 December 2016

اسیر شہزادی

سنگدل رواجوں کی یہ عمارت کہنہ

اپنے آپ پر نادم اپنے آپ سے لرزاں

جس کا زرہ زرہ ہے خود شکستگی ساماں

یہ خمیدہ دیواریں یہ جھکی ہوئی کڑیاں

سنگدل رواجوں کے خستہ حال زنداں میں،

یہ اسیر شہزادی

جبروخوف کی دختر، واہموں کی پروردہ

مصلحت سے ہم بستر، ضعف و یاس کی مادر

سنگدل رواجوں کے خستہ حال زنداں میں

ایک صدا مستانہ، ایک رقص رندانہ

یہ عمارت کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے

یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے

یہ اسیر شہزادی جس کا جسم شعلہ ہے

جس کی روح آہن ہے، جس کا نطق گویا ہے

بازوؤں میں قوت ہے، انگلیوں میں صناعی

یہ اسیر شہزادی جب نجات پاے گی

سانس لے گی دارانہ، محو رقص رندانہ

اپنی ذات پاے گی!!

فہمیدہ ریاض