Sunday 30 May 2021

کشمیر پاکستان

خان صاحب بادشاہ آدمی ہیں ۔ جو منہ میں آئے کہہ دیتے ہیں ۔ پھر حسب ضرورت یوٹرن لینے سے بھی نہیں چوکتے۔ کشمیر پاکستانی فارن پالیسی کا ایک بنیادی ستون ضرور ہے لیکن مشرف دور سے ہی کشمیر بارے ریاستی ادارے مان چکے ہیں جو جس کے پاس ہے اسکا ہے۔
اب مودی کے کشمیر کے سٹیٹس کو چینج کرنے کے بعد سے پاکستانی ریاستی پالیسی کشمیر بارے کنفیوژن کا شکار ہے۔ شاہ محمود صاحب نے فرمایا جس تک ہندوستان کشمیر کے سٹیٹس کو چینج کرنے والے اقدامات جب تک واپس نہیں لیتا تب تک بات چیت نہیں ہوسکتی ۔
پھر معلوم پڑا کے آئی ایس آئی اور را چیف آپس میں دبئی میں مل کر بات چیت کر رھے تھے۔
اب کیا خان صاحب ہندوستان سے تب تک بات چیت نہیں کریں گے جب تک کشمیر پہ لیے گیے اقدامات واپس نہیں ہوں گے ۔ میرا نہیں خیال مستقبل قریب میں ہندوستان وہ اقدامات واپس لے گا۔ شاید ان اقدامات کو واپس کروانے کے لیے بات چیت شروع کریں گے ۔ وللہ عالم

احمدیت بارے رائے

مجھ گنہگار کی رائے تو یہ ہے
کہ میں اپنے عقیدے اور مذہب کا جواب دہ ہوں۔ میں اس کا جواب دے سکتا ہوں کہ میں کیا ہوں ۔ اور کس بات یہ یقین رکھتا ہوں ۔
اور جواب دہ بھی یا تو میں خود اپنے ضمیر کو ہوں یا پھر اپنے خدا کو۔
کوئی دوسرہ کیا عقیدہ رکھتا ہے
کیا وہ مسلمان ہے کافر ہے مشرک بدعتی جہنمی ہے
یہ میری اتھارٹی ہی ہے نا ہی مجھے خدا نے یہ حق دیا ہے کہ میں دوسروں کے ایمان و کفر کے فیصلے کروں ۔
باقی میں نے اپنی قبر میں جانا ہے اور دوسروے عقیدے و مذاہب کے لوگوں نے اپنی ، میں نے اپنے خواب دینے ہیں اور انہوں نے اپنے دینے ہیں ۔
اور مالک یوم الدین وہی ہے جو آخری فیصلہ صادر کرے گا ۔
یہ فرقہ پرستی ہے کہ میں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے عقیدے کے بھی فیصلے کروں گا۔

احمدیت اور ہمارا مسئلہ

احمدی ہماری نظر میں ضرور غیر مسلم ہیں ۔ لیکن وہ بھی انسان ہیں اور انہیں پاکستان میں عزت امن و آستی کے ساتھ رھنے کا حق حاصل ہے
بلکل ویسے ہی جیسے مجھے اور آپکو حق حاصل ہے۔
انہیں بھی اپنے مذہب عقیدے پہ عمل کرنے کا مکمل حق حاصل ہونا چاہیے جیسے آپکو اور مجھے ہے۔
اس سے ان کے عقیدے کی وجہ سے نفرت مناسب نہیں اور یہ پاکستان کے حق میں نہین ۔

ہر ایک نے اپنی قبر میں جانا ہے اور اپنے مذہب عقیدے کا جواب دینا ہے ۔ پاکستان میں مسلمان (کئی فرقوں کے ساتھ) ہندو مسیح سکھ احمدی رہتے ہیں ان میں کسی کے خلاف بھی نفرت انگیزی مناسب نہیں

امید ہے ان سب باتوں کے بعد آپ مجھ سے اسلام کا سرٹیفیکٹ طلب نہیں کریں گے کیونکہ انتہاپسندی اور نفرت انگیزی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ احمدیوں یا اقلیتوں کے حق میں تھوڑی سی بات کریں تو سب سے پہلے آپ کو اپنے سرٹیفیکٹ دیکھانے پڑتے ہیں

روحانیت اور سائینس

I may be wrong.
But I feel someone (most probably Mrs imran Khan) has ingrained this idea in the mind of the Khan. The idea that the solution of this extremism and hyper-religiosity is to mould it into sufism.
I personally think this is a flawed idea. And that will make things very complex and difficult for the future governments to come. I think all these issues need to be addressed heads on.

Tuesday 4 May 2021

’میں کوئی ولی نہیں لیکن میں اتنا گناہ گار بھی نہیں جتنا یہ فوجی ٹولہ مجھے بنا کر پیش کر رہا ہے۔‘ ZA Bhutto

رولز روئس: نوابوں کی پسندیدہ برطانوی کار کمپنی جس کی گاڑیاں محمد علی جناح کی سواری بھی بنیں

  • عمیر سلیمی
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
4 گھنٹے قبل
رولز روئس

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

لگژی گاڑیوں کی برطانوی کمپنی رولز روئس پاکستان سمیت کئی ملکوں کی تاریخ کے اہم واقعات سے جڑی رہی ہے۔ اسے انڈیا کے مہاراجاؤں کی پسندیدہ کاروں میں سے ایک بھی سمجھا جاتا تھا

وہ دن پاکستان کی تاریخ کے سب سے اہم دنوں میں سے ایک تھا جب ملک کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے اسمبلی جانا تھا۔

مگر بظاہر اس نئے ملک کی سرکار کے پاس موقعے کی مناسبت سے کوئی اچھی گاڑیاں دستیاب نہیں تھیں۔

یہ 14 اگست 1947 کی بات ہے۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح اور انڈیا کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کراچی میں اس وقت کے گورنر جنرل ہاؤس سے سندھ اسمبلی پہنچنا تھا جہاں پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری کی تقریب رکھی گئی تھی۔

جناح کے اے ڈی سی جنرل گل حسن خان اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ ان کی ذمہ داری تھی۔

'مجھے سختی سے ہدایت دی گئی کہ ٹرانسپورٹ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ اسی سے گزارا کریں جو ہمارے پاس ہے اور ضرورت کے تحت (گاڑیاں) ادھار مانگیں۔'

'گاڑی ادھار مانگنا عملی طور پر ٹھیک ثابت نہیں ہوا کیونکہ جن کے پاس اچھی نظر آنے والی گاڑیاں تھیں، انھوں نے خود ان گاڑیوں پر تقاریب میں شریک ہونا تھا۔'

یہ بھی پڑھیے

اور پھر ایک مزید مشکل اس وقت کھڑی ہوئی جب وائسرائے اور گورنر جنرل نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ سندھ اسمبلی کسی کھلی چھت والی گاڑی پر آنا چاہیں گے۔

'ایسی گاڑی کا بندوبست کرنا آسان نہیں تھا۔ مگر بڑی تگ و دو کے بعد ایسی ایک گاڑی ڈھونڈ لی گئی۔'

رولز روئس

،تصویر کا ذریعہMOHSIN IKRAM

،تصویر کا کیپشن

پاکستان کے بانی محمد علی جناح اور انڈیا کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس رولز روئس میں گورنر جنرل ہاؤس سے سندھ اسمبلی پہنچے تھے

پیلے رنگ کی یہ رولز روئس نواب آف بہاولپور کی ملکیت تھی۔ سنہ 1924 کے اس ماڈل کو 'کئی برسوں سے استعمال میں نہیں لایا گیا تھا اور اسے کافی مرمت کی ضرورت تھی۔'

سندھ اسمبلی کی عمارت میں تقریب کے بعد وائسرائے اور گورنر جنرل واپس گورنر جنرل ہاؤس پہنچے۔

تقریب کے بعد کا احوال بتاتے ہوئے گل حسن کہتے ہیں کہ 'پیلی رولز روئس بمشکل (گھر کے) پورچ تک پہنچ پائی۔ دونوں معزز شخصیات کو اس پر سے اُتارا گیا اور پھر اس (کار) نے کہا کہ بس اب بہت ہو گیا۔' اچانک اس کے انجن میں آگ بھڑک اٹھی جسے عملے نے بجھایا۔

'گاڑی کو دھکا لگا کر آگے لے جایا گیا تاکہ مِس جناح اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کی کار کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔'

وہ مزید بتاتے ہیں کہ 'میں نے فوراً حکم دیا کہ رولز روئس اس کے اصل مالک کو لوٹا دی جائے، اس سے پہلے کہ کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ کیوں نہ اس کھلی چھت والی کار پر کراچی کی سیر کی جائے۔'

رولز روئس

،تصویر کا ذریعہMOHSIN IKRAM

،تصویر کا کیپشن

ملکہ برطانیہ کی جانب سے ایک رولز روئس پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کو تحفے میں دی گئی تھی جو ان کی موت تک ان کے استعمال میں رہی

رولز روئس جسے نوابوں نے پسند کیا

لگژی گاڑیوں کی برطانوی کمپنی رولز روئس پاکستان سمیت کئی ملکوں کی تاریخ کے اہم واقعات سے جڑی رہی ہے اور اسے انڈیا کے مہاراجاؤں کی پسندیدہ کاروں میں سے ایک بھی سمجھا جاتا تھا۔

رولز روئس کی بنیاد 4 مئی 1904 میں رکھی گئی تھی جب گاڑیوں کی شوقین ایک کاروباری شخصیت چارلز رولز کی ملاقات ایک انجینئیر ہنری روئس سے ہوئی۔ دونوں مل کر مستقبل کی غیر معمولی گاڑیاں بنانا چاہتے تھے۔

رولز اس کاروبار کو سمجھتے تھے کیونکہ انھیں درآمد شدہ غیر ملکی گاڑیاں بیچنے کا تجربہ تھا اور دوسری طرف روئس بطور انجینیئر اپنے فن میں ماہر تھے جو اس دور میں بھی ورک فرام ہوم کرتے ہوئے اپنے گھر میں موجود سٹوڈیو سے اکثر کام کیا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ان کی گاڑیوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران رولز روئس نے برطانیہ کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے جنگی جہازوں کے انجن بنانا شروع کیے۔ پھر دوسری عالمی جنگ کے دوران اس کے انجن میں طلب میں اضافے کے ساتھ اس چھوٹی کمپنی سی کمپنی کا کاروبار مزید بڑھا گیا۔

سنہ 1953 میں رولز روئس نے سویلین مسافر طیاروں کے جیٹ انجن بھی بنانا شروع کر دیے۔ 80 کی دہائی میں زمین، فضا اور پانی میں آمدورفت کے لیے معاونت فراہم کرنے والی واحد برطانوی کمپنی بن گئی۔

نوے کی دہائی کے اواخر میں جرمن کار کمپنی بی ایم ڈبلیو نے رولز روئس کو 340 ملین پاؤنڈز میں خرید لیا تھا اور سنہ 2003 سے بی ایم ڈبلیو نے تمام رولز روئس گاڑیاں بنانے کی ذمہ داری لے لی تھی۔

رولز روئس

،تصویر کا ذریعہMOHSIN IKRAM

پاکستان میں ونٹیج اینڈ کلاسک کار کلب کے بانی محسن اکرام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہاں ابتدا میں رولز روئس گاڑیاں نواب خاندانوں کے پاس ہی ہوا کرتی تھیں۔

شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ گاڑی اس وقت ایک 'سٹیٹس سمبل' سمجھی جاتی تھی اور لوگ اسے اپنی پسند سے تیار کروا سکتے تھے۔

محسن اکرام بتاتے ہیں 'نواب آف خیرپور کے پاس دو قدیم رولز روئس تھیں جن میں سے ایک اب پاکستان سے باہر جا چکی ہے اور دوسری ری سٹور کیا جا چکا ہے۔ نواب آف بہاولپور کے پاس کافی رولز روئس گاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔'

وہ بتاتے ہیں کہ سنہ 1947 میں جناح کی سواری بننے والی ایک رولز روئس اب کاروباری شخصیت کریم چھاپرا کے پاس ہے۔

'اُس وقت پاکستان کی حکومت کے پاس اتنی گاڑیاں نہیں تھیں تو انھوں نے نواب آف بہاولپور سے یہ گاڑی ادھار لی تھی۔'

ملکہ برطانیہ کی جانب سے بھی ایک رولز روئس پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کو تحفے میں دی گئی تھی جو ان کی موت تک ان کے استعمال میں رہی۔

محسن اکرام نے بتایا کہ 'ملکہ برطانیہ کی طرف سے جناح کو ملنے والی رولز روئس میں ان کی گزارش پر اینیمل گلو کی جگہ آرٹیفیشل گلو استعمال کی گئی تھی۔'

انھوں نے اس گاڑی کو ریسٹور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ نیلامی کے کئی برسوں بعد اب یہ بزنس مین عارف ہاشوانی کے پاس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک بہت قیمتی برانڈ ہے اور اس کی کچھ گنتی کی کاریں ہی پاکستان میں موجود ہوا کرتی تھیں۔'

رولز روئس

،تصویر کا ذریعہMOHSIN IKRAM

،تصویر کا کیپشن

اداکار شیخ مختار کی رولز روئس جو کراچی میں گلشن اقبال کے علاقے میں ایک چھت پر کھڑی ہے

کراچی کی ایک عمارت کی چھت پر کھڑی رولز روئس

محسن نے بتایا کہ وہ کچھ سال قبل تک مختلف علاقوں میں ونٹیج گاڑیوں کی کھوج پر نکلا کرتے تھے۔

'ہم مقامی لوگوں سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا یہاں کوئی پرانی گاڑی کھڑی ہے۔'

وہ مزید بتاتے ہیں کہ 'ہم یہ کاریں جا کر دیکھا کرتے تھے۔ اکثر کوئی فوکس یا موریس ہوتی تھی۔ اسی طرح گارڈن کے علاقے میں ہم پرانی گاڑیاں ڈھونڈ رہے تھے تو کسی نے بتایا (عمارت کی چھت پر) ایک گاڑی سامان کے نیچے دبی ہوئی ہے۔'

'جب سامان اتارا تو پتا چلا 1920 کی رولز روئس وہاں کھڑی تھی۔'

محسن نے بتایا کہ یہ گاڑی انڈین اداکار شیخ مختار کی تھی جو ستر کی دہائی میں پاکستان آ گئے تھے اور انھیں گاڑیوں کا بہت شوق تھا۔

'اب یہ گاڑی کراچی میں گلشن اقبال کے علاقے میں ایک چھت پر کھڑی ہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بچوں نے گاڑی کا خیال نہیں کیا اور امریکہ منتقل ہو گئے۔'

'کسی کو نہیں معلوم کہ یہ گاڑی عمارت کی چھت پر کیسے پہنچی۔'

بھٹو کو جب رولز روئس کا 'تحفہ' دیا گیا

لیکن رولز روئس جیسی مہنگی کار کا تحفہ کسی حکمران کے لیے مشکل بھی کھڑی کر سکتا ہے۔

رولز روئس

،تصویر کا ذریعہMOHSIN IKRAM

،تصویر کا کیپشن

یہ کار بھٹو کے علاوہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو، شہزادی ڈیانا اور محمد علی باکسر کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کے سربراہان کے پاکستان دوروں کے دوران بھی زیر استعمال رہی

پاکستان کے سابق وزیراعظم بھٹو اپنی کتاب 'اگر مجھے قتل کیا گیا' میں لکھتے ہیں کہ انھیں سعودی عرب کی جانب سے رولز رائس لگژری کار تحفے میں دی گئی تھی۔

'اکتوبر 1976 میں سعودی عرب کے شاہ خالد پاکستان کے دورے پر آئے۔۔۔ (انھوں نے) مجھے ایک رولز روئس کار دی اور یہ اصرار کیا کہ یہ ایک ذاتی تحفہ ہے۔ جو صرف میری ذات کے لیے ہے۔'

مگر بھٹو کہتے ہیں کہ انھوں نے 'فی الفور اس کار کو سرکاری املاک میں رجسٹر کرادیا۔۔۔ میں بھی یہ رولز روئس اپنے لیے رکھ سکتا تھا۔'

'میں کوئی ولی نہیں لیکن میں اتنا گناہ گار بھی نہیں جتنا یہ فوجی ٹولہ مجھے بنا کر پیش کر رہا ہے۔'

درحقیقت وہ اس مثال سے یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ انھوں نے حکومت میں رہتے ہوئے جہاں تک ممکن ہوا اپنی ساکھ قائم رکھنے کی کوشش کی تھی۔

اس رولز روئس سلور شیڈو کی نمائش کے دوران بتایا گیا تھا کہ یہ کار بھٹو کے علاوہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو، شہزادی ڈیانا اور محمد علی باکسر کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کے سربراہان کے پاکستان دوروں کے دوران زیر استعمال رہی۔