Wednesday 23 June 2021

Prediction

Mark my words this picture will come and haunt Pakistan in the near future.

Sunday 6 June 2021

Resurgence of Taliban and Pakistan

That's very alarming.
We will bear the brunt,not the US, of this resurgence of Taliban.
Our custodians are hoping that they will be able to tame this monster again to use it for our geo-political gains. But I am worried that this will not be possible and it will lead to more Talibanization of our country

Friday 4 June 2021

Imran khan, dialogue with India, pre-requisites


آپ بھی یہی اور ہم بھی یہیں
یہ یا ان کی بعد کی حکومتیں اسی منہ سے ہندوستان سے ( جب وہ نا کشمیر کی پرانی حیثیت بحال کرے گا اور نا ہی روڈ میپ دے گا) سے بات چیت کریں گے۔

اس لیے خارجہ پالسیی میں آپ کو بات کو سوچ سمجھ ناپ تول کر کہنا ہوتا ہے لیکن کہاں ان کے تو جو منہ میں آئے کہہ دیتے ہیں

Thursday 3 June 2021

ملالہ دشمن


ملالہ مخالف ایک پورا طبقہ ہے ۔ جو اسے ملک دشمن اور ویسٹ کی ایجنٹ سمجھتا ہے اور اسے ملنے والے نوبل پرائیز کو بھی شک کینگاہ سے دیکھتا ہے۔ ملالہ جو بھی کہے گی انہوں نے اس کی مخالفت ہی کرنی ہے۔  انہوں نے تو کبھی اس پر ہونے والے جانلیوا حملے کو بھی کھلے دل سے قبول نہیں کیا اس بارے بھی کئی سازشی تھیوریاں بنائی اور پھیلائی ہیں۔ 

اس طبقے میں *عمومی طور پہ کچھ مشترک صفات ہیں 

  • وہ مذہب اسلام کے سیاسی استعمال کے حامی ہیں 
  • وہ افغان طالبان کو "مجاہدینسمجھتے ہیں 
  • پاکستانی طالبان کو دشمنوں کا ایجنٹ اور خارجی/فسادی سمجھتے ہیں۔
  • امریکہ ہندوستان اور مغرب  کو پاکستان/اسلام  کا دشمن سمجھتے ہیں 
  • مولانا اسرار احمد، ذاکر نائیک، مفتی تقی عثمانی ، مفتی مانیک صاحب کو اسلام کے اصلی ماہرین سمجھتے ہیں 
  • پاکستان میں رہنے والی تمام اقلیتیوں خاص طور پر احمدیوں سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں ریاست میں برابر کا شہری نہیںسمجھتے 
  • عورت مارچ کے سخت مخالف ہیں اور میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں سن کر لال پیلے ہوتے ہیں
  • پاکستان فوج اور ایجنسیوں سے سیاست میں کردار کو ملک کے حق میں سمجھتے ہیں 
  • سیاست دانوں کو اس ملک کی برائیوں کی سب سے بڑی جڑ سمجھتے ہیں 
  • زیادہ تر خان صاحب کچھ نواز شریف صاحب کو سیاسی طور پر سپورٹ کرتے ہیں 
  • میڈیا کی آزادی پہ قدغنوں کو جائیز سمجھتے ہیں 
  • ملک کے ایک بہت بڑے طبقے کو دشمنوں کا ایجنٹ غدار اور ریاست دشمن سمجھتے ہیں 

Tuesday 1 June 2021

Budget debate; health and education versus defence

I think the problem is fundamental.
This country is a security state not a welfare state.
So that's why all money is being spent of security rather than on the welfare of the it's people.

Just imagine defence budget per years is 10-1500 billion rupees.
Now imagine last 10 years it will be 15,000 billion PKR on defence.
While health and education budget in last 10 years will not be worth 1 year of defence budget.

So un less we change the whole dynamic of the state where we spend more money on health education and the welfare of our people rather than their security we will still be having these problems.

بنگلہ دیش اکانومی

صرف یہ ایک بات نہیں ہے۔ اور والے آرٹیکل میں لکھا ہے تین مین وجوہات جن پہ بنگالی اکانومی کھڑی ہے ان میں
ایکسپورٹ
معاشرتی ترقی
معاشی سمجھداری
شامل ہیں

ایک تو انہوں نے ملائیت سے جان چھڑوائی ہے
دوسرے فوج سے جان چھڑوائی

اور عوام کی فلاح اور معاشی ترقی پہ توجہ دی ہے۔ جس کے نتائج سامنے ہیں

Sunday 30 May 2021

کشمیر پاکستان

خان صاحب بادشاہ آدمی ہیں ۔ جو منہ میں آئے کہہ دیتے ہیں ۔ پھر حسب ضرورت یوٹرن لینے سے بھی نہیں چوکتے۔ کشمیر پاکستانی فارن پالیسی کا ایک بنیادی ستون ضرور ہے لیکن مشرف دور سے ہی کشمیر بارے ریاستی ادارے مان چکے ہیں جو جس کے پاس ہے اسکا ہے۔
اب مودی کے کشمیر کے سٹیٹس کو چینج کرنے کے بعد سے پاکستانی ریاستی پالیسی کشمیر بارے کنفیوژن کا شکار ہے۔ شاہ محمود صاحب نے فرمایا جس تک ہندوستان کشمیر کے سٹیٹس کو چینج کرنے والے اقدامات جب تک واپس نہیں لیتا تب تک بات چیت نہیں ہوسکتی ۔
پھر معلوم پڑا کے آئی ایس آئی اور را چیف آپس میں دبئی میں مل کر بات چیت کر رھے تھے۔
اب کیا خان صاحب ہندوستان سے تب تک بات چیت نہیں کریں گے جب تک کشمیر پہ لیے گیے اقدامات واپس نہیں ہوں گے ۔ میرا نہیں خیال مستقبل قریب میں ہندوستان وہ اقدامات واپس لے گا۔ شاید ان اقدامات کو واپس کروانے کے لیے بات چیت شروع کریں گے ۔ وللہ عالم

احمدیت بارے رائے

مجھ گنہگار کی رائے تو یہ ہے
کہ میں اپنے عقیدے اور مذہب کا جواب دہ ہوں۔ میں اس کا جواب دے سکتا ہوں کہ میں کیا ہوں ۔ اور کس بات یہ یقین رکھتا ہوں ۔
اور جواب دہ بھی یا تو میں خود اپنے ضمیر کو ہوں یا پھر اپنے خدا کو۔
کوئی دوسرہ کیا عقیدہ رکھتا ہے
کیا وہ مسلمان ہے کافر ہے مشرک بدعتی جہنمی ہے
یہ میری اتھارٹی ہی ہے نا ہی مجھے خدا نے یہ حق دیا ہے کہ میں دوسروں کے ایمان و کفر کے فیصلے کروں ۔
باقی میں نے اپنی قبر میں جانا ہے اور دوسروے عقیدے و مذاہب کے لوگوں نے اپنی ، میں نے اپنے خواب دینے ہیں اور انہوں نے اپنے دینے ہیں ۔
اور مالک یوم الدین وہی ہے جو آخری فیصلہ صادر کرے گا ۔
یہ فرقہ پرستی ہے کہ میں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے عقیدے کے بھی فیصلے کروں گا۔

احمدیت اور ہمارا مسئلہ

احمدی ہماری نظر میں ضرور غیر مسلم ہیں ۔ لیکن وہ بھی انسان ہیں اور انہیں پاکستان میں عزت امن و آستی کے ساتھ رھنے کا حق حاصل ہے
بلکل ویسے ہی جیسے مجھے اور آپکو حق حاصل ہے۔
انہیں بھی اپنے مذہب عقیدے پہ عمل کرنے کا مکمل حق حاصل ہونا چاہیے جیسے آپکو اور مجھے ہے۔
اس سے ان کے عقیدے کی وجہ سے نفرت مناسب نہیں اور یہ پاکستان کے حق میں نہین ۔

ہر ایک نے اپنی قبر میں جانا ہے اور اپنے مذہب عقیدے کا جواب دینا ہے ۔ پاکستان میں مسلمان (کئی فرقوں کے ساتھ) ہندو مسیح سکھ احمدی رہتے ہیں ان میں کسی کے خلاف بھی نفرت انگیزی مناسب نہیں

امید ہے ان سب باتوں کے بعد آپ مجھ سے اسلام کا سرٹیفیکٹ طلب نہیں کریں گے کیونکہ انتہاپسندی اور نفرت انگیزی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ احمدیوں یا اقلیتوں کے حق میں تھوڑی سی بات کریں تو سب سے پہلے آپ کو اپنے سرٹیفیکٹ دیکھانے پڑتے ہیں

روحانیت اور سائینس

I may be wrong.
But I feel someone (most probably Mrs imran Khan) has ingrained this idea in the mind of the Khan. The idea that the solution of this extremism and hyper-religiosity is to mould it into sufism.
I personally think this is a flawed idea. And that will make things very complex and difficult for the future governments to come. I think all these issues need to be addressed heads on.

Tuesday 4 May 2021

’میں کوئی ولی نہیں لیکن میں اتنا گناہ گار بھی نہیں جتنا یہ فوجی ٹولہ مجھے بنا کر پیش کر رہا ہے۔‘ ZA Bhutto

رولز روئس: نوابوں کی پسندیدہ برطانوی کار کمپنی جس کی گاڑیاں محمد علی جناح کی سواری بھی بنیں

  • عمیر سلیمی
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
4 گھنٹے قبل
رولز روئس

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

لگژی گاڑیوں کی برطانوی کمپنی رولز روئس پاکستان سمیت کئی ملکوں کی تاریخ کے اہم واقعات سے جڑی رہی ہے۔ اسے انڈیا کے مہاراجاؤں کی پسندیدہ کاروں میں سے ایک بھی سمجھا جاتا تھا

وہ دن پاکستان کی تاریخ کے سب سے اہم دنوں میں سے ایک تھا جب ملک کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے اسمبلی جانا تھا۔

مگر بظاہر اس نئے ملک کی سرکار کے پاس موقعے کی مناسبت سے کوئی اچھی گاڑیاں دستیاب نہیں تھیں۔

یہ 14 اگست 1947 کی بات ہے۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح اور انڈیا کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کراچی میں اس وقت کے گورنر جنرل ہاؤس سے سندھ اسمبلی پہنچنا تھا جہاں پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری کی تقریب رکھی گئی تھی۔

جناح کے اے ڈی سی جنرل گل حسن خان اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ ان کی ذمہ داری تھی۔

'مجھے سختی سے ہدایت دی گئی کہ ٹرانسپورٹ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ اسی سے گزارا کریں جو ہمارے پاس ہے اور ضرورت کے تحت (گاڑیاں) ادھار مانگیں۔'

'گاڑی ادھار مانگنا عملی طور پر ٹھیک ثابت نہیں ہوا کیونکہ جن کے پاس اچھی نظر آنے والی گاڑیاں تھیں، انھوں نے خود ان گاڑیوں پر تقاریب میں شریک ہونا تھا۔'

یہ بھی پڑھیے

اور پھر ایک مزید مشکل اس وقت کھڑی ہوئی جب وائسرائے اور گورنر جنرل نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ سندھ اسمبلی کسی کھلی چھت والی گاڑی پر آنا چاہیں گے۔

'ایسی گاڑی کا بندوبست کرنا آسان نہیں تھا۔ مگر بڑی تگ و دو کے بعد ایسی ایک گاڑی ڈھونڈ لی گئی۔'

رولز روئس

،تصویر کا ذریعہMOHSIN IKRAM

،تصویر کا کیپشن

پاکستان کے بانی محمد علی جناح اور انڈیا کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس رولز روئس میں گورنر جنرل ہاؤس سے سندھ اسمبلی پہنچے تھے

پیلے رنگ کی یہ رولز روئس نواب آف بہاولپور کی ملکیت تھی۔ سنہ 1924 کے اس ماڈل کو 'کئی برسوں سے استعمال میں نہیں لایا گیا تھا اور اسے کافی مرمت کی ضرورت تھی۔'

سندھ اسمبلی کی عمارت میں تقریب کے بعد وائسرائے اور گورنر جنرل واپس گورنر جنرل ہاؤس پہنچے۔

تقریب کے بعد کا احوال بتاتے ہوئے گل حسن کہتے ہیں کہ 'پیلی رولز روئس بمشکل (گھر کے) پورچ تک پہنچ پائی۔ دونوں معزز شخصیات کو اس پر سے اُتارا گیا اور پھر اس (کار) نے کہا کہ بس اب بہت ہو گیا۔' اچانک اس کے انجن میں آگ بھڑک اٹھی جسے عملے نے بجھایا۔

'گاڑی کو دھکا لگا کر آگے لے جایا گیا تاکہ مِس جناح اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کی کار کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔'

وہ مزید بتاتے ہیں کہ 'میں نے فوراً حکم دیا کہ رولز روئس اس کے اصل مالک کو لوٹا دی جائے، اس سے پہلے کہ کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ کیوں نہ اس کھلی چھت والی کار پر کراچی کی سیر کی جائے۔'

رولز روئس

،تصویر کا ذریعہMOHSIN IKRAM

،تصویر کا کیپشن

ملکہ برطانیہ کی جانب سے ایک رولز روئس پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کو تحفے میں دی گئی تھی جو ان کی موت تک ان کے استعمال میں رہی

رولز روئس جسے نوابوں نے پسند کیا

لگژی گاڑیوں کی برطانوی کمپنی رولز روئس پاکستان سمیت کئی ملکوں کی تاریخ کے اہم واقعات سے جڑی رہی ہے اور اسے انڈیا کے مہاراجاؤں کی پسندیدہ کاروں میں سے ایک بھی سمجھا جاتا تھا۔

رولز روئس کی بنیاد 4 مئی 1904 میں رکھی گئی تھی جب گاڑیوں کی شوقین ایک کاروباری شخصیت چارلز رولز کی ملاقات ایک انجینئیر ہنری روئس سے ہوئی۔ دونوں مل کر مستقبل کی غیر معمولی گاڑیاں بنانا چاہتے تھے۔

رولز اس کاروبار کو سمجھتے تھے کیونکہ انھیں درآمد شدہ غیر ملکی گاڑیاں بیچنے کا تجربہ تھا اور دوسری طرف روئس بطور انجینیئر اپنے فن میں ماہر تھے جو اس دور میں بھی ورک فرام ہوم کرتے ہوئے اپنے گھر میں موجود سٹوڈیو سے اکثر کام کیا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ان کی گاڑیوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران رولز روئس نے برطانیہ کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے جنگی جہازوں کے انجن بنانا شروع کیے۔ پھر دوسری عالمی جنگ کے دوران اس کے انجن میں طلب میں اضافے کے ساتھ اس چھوٹی کمپنی سی کمپنی کا کاروبار مزید بڑھا گیا۔

سنہ 1953 میں رولز روئس نے سویلین مسافر طیاروں کے جیٹ انجن بھی بنانا شروع کر دیے۔ 80 کی دہائی میں زمین، فضا اور پانی میں آمدورفت کے لیے معاونت فراہم کرنے والی واحد برطانوی کمپنی بن گئی۔

نوے کی دہائی کے اواخر میں جرمن کار کمپنی بی ایم ڈبلیو نے رولز روئس کو 340 ملین پاؤنڈز میں خرید لیا تھا اور سنہ 2003 سے بی ایم ڈبلیو نے تمام رولز روئس گاڑیاں بنانے کی ذمہ داری لے لی تھی۔

رولز روئس

،تصویر کا ذریعہMOHSIN IKRAM

پاکستان میں ونٹیج اینڈ کلاسک کار کلب کے بانی محسن اکرام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہاں ابتدا میں رولز روئس گاڑیاں نواب خاندانوں کے پاس ہی ہوا کرتی تھیں۔

شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ گاڑی اس وقت ایک 'سٹیٹس سمبل' سمجھی جاتی تھی اور لوگ اسے اپنی پسند سے تیار کروا سکتے تھے۔

محسن اکرام بتاتے ہیں 'نواب آف خیرپور کے پاس دو قدیم رولز روئس تھیں جن میں سے ایک اب پاکستان سے باہر جا چکی ہے اور دوسری ری سٹور کیا جا چکا ہے۔ نواب آف بہاولپور کے پاس کافی رولز روئس گاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔'

وہ بتاتے ہیں کہ سنہ 1947 میں جناح کی سواری بننے والی ایک رولز روئس اب کاروباری شخصیت کریم چھاپرا کے پاس ہے۔

'اُس وقت پاکستان کی حکومت کے پاس اتنی گاڑیاں نہیں تھیں تو انھوں نے نواب آف بہاولپور سے یہ گاڑی ادھار لی تھی۔'

ملکہ برطانیہ کی جانب سے بھی ایک رولز روئس پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کو تحفے میں دی گئی تھی جو ان کی موت تک ان کے استعمال میں رہی۔

محسن اکرام نے بتایا کہ 'ملکہ برطانیہ کی طرف سے جناح کو ملنے والی رولز روئس میں ان کی گزارش پر اینیمل گلو کی جگہ آرٹیفیشل گلو استعمال کی گئی تھی۔'

انھوں نے اس گاڑی کو ریسٹور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ نیلامی کے کئی برسوں بعد اب یہ بزنس مین عارف ہاشوانی کے پاس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک بہت قیمتی برانڈ ہے اور اس کی کچھ گنتی کی کاریں ہی پاکستان میں موجود ہوا کرتی تھیں۔'

رولز روئس

،تصویر کا ذریعہMOHSIN IKRAM

،تصویر کا کیپشن

اداکار شیخ مختار کی رولز روئس جو کراچی میں گلشن اقبال کے علاقے میں ایک چھت پر کھڑی ہے

کراچی کی ایک عمارت کی چھت پر کھڑی رولز روئس

محسن نے بتایا کہ وہ کچھ سال قبل تک مختلف علاقوں میں ونٹیج گاڑیوں کی کھوج پر نکلا کرتے تھے۔

'ہم مقامی لوگوں سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا یہاں کوئی پرانی گاڑی کھڑی ہے۔'

وہ مزید بتاتے ہیں کہ 'ہم یہ کاریں جا کر دیکھا کرتے تھے۔ اکثر کوئی فوکس یا موریس ہوتی تھی۔ اسی طرح گارڈن کے علاقے میں ہم پرانی گاڑیاں ڈھونڈ رہے تھے تو کسی نے بتایا (عمارت کی چھت پر) ایک گاڑی سامان کے نیچے دبی ہوئی ہے۔'

'جب سامان اتارا تو پتا چلا 1920 کی رولز روئس وہاں کھڑی تھی۔'

محسن نے بتایا کہ یہ گاڑی انڈین اداکار شیخ مختار کی تھی جو ستر کی دہائی میں پاکستان آ گئے تھے اور انھیں گاڑیوں کا بہت شوق تھا۔

'اب یہ گاڑی کراچی میں گلشن اقبال کے علاقے میں ایک چھت پر کھڑی ہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بچوں نے گاڑی کا خیال نہیں کیا اور امریکہ منتقل ہو گئے۔'

'کسی کو نہیں معلوم کہ یہ گاڑی عمارت کی چھت پر کیسے پہنچی۔'

بھٹو کو جب رولز روئس کا 'تحفہ' دیا گیا

لیکن رولز روئس جیسی مہنگی کار کا تحفہ کسی حکمران کے لیے مشکل بھی کھڑی کر سکتا ہے۔

رولز روئس

،تصویر کا ذریعہMOHSIN IKRAM

،تصویر کا کیپشن

یہ کار بھٹو کے علاوہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو، شہزادی ڈیانا اور محمد علی باکسر کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کے سربراہان کے پاکستان دوروں کے دوران بھی زیر استعمال رہی

پاکستان کے سابق وزیراعظم بھٹو اپنی کتاب 'اگر مجھے قتل کیا گیا' میں لکھتے ہیں کہ انھیں سعودی عرب کی جانب سے رولز رائس لگژری کار تحفے میں دی گئی تھی۔

'اکتوبر 1976 میں سعودی عرب کے شاہ خالد پاکستان کے دورے پر آئے۔۔۔ (انھوں نے) مجھے ایک رولز روئس کار دی اور یہ اصرار کیا کہ یہ ایک ذاتی تحفہ ہے۔ جو صرف میری ذات کے لیے ہے۔'

مگر بھٹو کہتے ہیں کہ انھوں نے 'فی الفور اس کار کو سرکاری املاک میں رجسٹر کرادیا۔۔۔ میں بھی یہ رولز روئس اپنے لیے رکھ سکتا تھا۔'

'میں کوئی ولی نہیں لیکن میں اتنا گناہ گار بھی نہیں جتنا یہ فوجی ٹولہ مجھے بنا کر پیش کر رہا ہے۔'

درحقیقت وہ اس مثال سے یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ انھوں نے حکومت میں رہتے ہوئے جہاں تک ممکن ہوا اپنی ساکھ قائم رکھنے کی کوشش کی تھی۔

اس رولز روئس سلور شیڈو کی نمائش کے دوران بتایا گیا تھا کہ یہ کار بھٹو کے علاوہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو، شہزادی ڈیانا اور محمد علی باکسر کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کے سربراہان کے پاکستان دوروں کے دوران زیر استعمال رہی۔

Monday 26 April 2021

استاد بڑے غلام علی courtesy BBC urdu o

بڑے غلام علی خان: کلاسیکی موسیقی کے عظیم فنکار پاکستان چھوڑ کر انڈیا کیوں چلے گئے تھے

  • طاہر سرور میر
  • صحافی
استاد بڑے غلام علی خان

،تصویر کا ذریعہNAQI ALI KHAN

،تصویر کا کیپشن

استاد بڑے غلام علی خاں کا ایک زمانہ مداح رہا اور برصغیر میں کوئی ایسا نہیں جو ان کی فنی عظمت سے انکار کرتا ہو

ایک طرف ہندوستانی قوم کے باپو گاندھی اس طبع زاد فنکار کے احسان مند تھے تو دوسری طرف پاکستان میں ایک سرکاری افسر نے ان کی توہین کر کے انھیں اپنی جنم بھومی سے دور کرنے کا جواز فراہم کیا۔ 

یہ کہانی ہے استاد بڑے غلام علی خاں کی زندگی کی جن کے بارے میں اساتذہ فن کا کہنا ہے کہ وہ کلاسیکی موسیقی کی تاریخ کے سب سے زیادہ معتبر اور معروف استاد ہیں۔

آزادی کے بعد 'فادر آف نیشن' موہن داس کرم چند گاندھی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے پراتھنا (دعا) کرانی تھی۔ گاندھی کی تقریر اور پراتھنا سے پہلے استاد بڑے غلام علی خاں نے ابتدائیہ کے طور پر اپنے فن کامظاہرہ کرنا تھا لیکن ان کے آنے میں تاخیر ہو گئی۔

بڑے خاں صاحب ممبئی کی ٹریفک میں پھنس چکے تھے اور قوم کے ساتھ باپو بھی خاں صاحب کے منتظر تھے۔

جیسے ہی خاں صاحب جلوہ گر ہوئے لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ بھاری بھر کم استا د کی سانس پھولی ہوئی تھی، فربہ جسم، بڑی بڑی مونچھیں، یوں لگتا تھا جیسے کوئی ادھیڑ عمر پہلوان ہو۔

گاندھی کی نگاہ خاں صاحب پر تھی جو اتنی اہم تقریب میں تاخیر سے آنے پر پشیمان تھے۔

یہ بھی پڑھیے

گاندھی نے جب دیکھا کہ خاں صاحب پریشان ہیں تو انھیں دیکھتے ہوئے کچھ اشارے سے اور تھوڑا بول کر کہا کہ خاں صاحب آپ بہت تنومند ہیں اور میں دُبلا پتلا ہوں اس لیے آپ سے لڑ نہیں سکتا۔۔۔ یہ سنتے اور دیکھتے ہوئے خاں صاحب کی پشیمانی بھی ہوا ہو گئی اور پھر وہ نغمہ سرا ہوئے۔ 

آزادی کی اس یادگار تقریب میں استاد نے راگ پہاڑی میں ایک بندش سنائی جس کا مکھڑا تھا 'ہری اوم تت ست جپا کر، جپا کر'۔ 

استاد بڑے غلام علی خان

،تصویر کا ذریعہNAQI ALI KHAN

،تصویر کا کیپشن

'مغل اعظم' جسے فلمی تاریخ میں ایک کلاسک کی حیثیت حاصل ہے، اسے یادگار بنانے کے لیے استاد بڑے غلام علی خان کی آواز نے بھی جادو جگایا تھا

استاد نے بھجن بھی سنائے جس پر باپو نے کہا کہ انسانی روح کبھی ختم نہیں ہوتی، روح کچھ کھاتی پیتی نہیں اگر اسے کچھ کھانا ہو تو یہ بجھن اس کی خوراک ہو سکتی ہے۔ گاندھی نے استاد بڑے غلام علی خاں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خالص سنسکرت میں جو کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ انسانی بھلائی کا درس ایک عظیم آواز سے لافانی ہو گیا۔ 

اس کے بعد گرج دار تالیاں گونجیں اور بڑے خاں صاحب تادیر اپنے خزانے لٹاتے رہے۔

باپو گاندھی ۔۔۔ بڑے خاں صاحب کے مداح

موہن داس کرم چند گاندھی، استاد بڑے غلام علی خاں کے مداحوں میں شامل تھے۔ جس کا اظہار انھوں نے 26 مئی 1944 کو بڑے خاں صاحب کے عظیم فن کی تعظیم میں ایک تحریری خط لکھ کر کیا تھا۔ 

گاندھی لکھتے ہیں کہ آپ نے یہاں آ کر اور میٹھا بجھن سنا کر مجھے احسان مند کیا۔ میں کچھ سنگیت جانتا نہیں ہوں، استادوں کا گانا بہت کم سنا ہے، بہت کم سمجھتا ہوں، جس گانے میں بھگوان کا نام آتا ہے وہ مجھے بہت بھاتا ہے۔

آپ کا موہن داس کرم چند گاندھی۔ 

استاد بڑے غلام علی خان

،تصویر کا ذریعہNAQI ALI KHAN

،تصویر کا کیپشن

استاد بڑے غلام علی خان، میوزک ڈائریکٹر نوشاد کے ساتھ

میاں تان سین کو اگر ریکارڈ کیا جاتا تو وہ بھی بڑے خاں صاحب سے سریلے نہ ہوتے

استاد بڑے غلام علی خاں کو 'جگت استاد' مانا گیا ہے۔ موسیقی کے جہاں میں بڑے بڑے نامی گویے ہوئے لیکن جو عزت، شہرت اور دوام استاد بڑے غلام علی خاں کے نام کے ساتھ جڑا وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتا۔ 

دنیا میں ریکارڈنگ کا سلسلہ سنہ 1877 میں شروع ہوا جبکہ متحدہ ہندوستان میں گوہر جان وہ مغینہ تھیں جنھیں پہلی بار سنہ 1902 میں ریکارڈ کیا گیا۔ اساتذہ فن کا کہنا ہے کہ 'مغل اعظم' کے درباری گویے میاں تان سین کو سنگیت کے جہان میں ایک دیو مالائی کردار مانا جاتا تھا۔

تصور کیا جاتا کہ تان سین سُروں کے سمراٹ اور تال ان کی لونڈی تھی۔ میاں تان سین کے فن اور آواز کے بارے میں گمان کیا جاتا کہ کوئی ان کا ثانی نہیں ہو سکتا۔

تان سین کو چونکہ ریکارڈ نہیں کیا جا سکا لیکن اگر انھیں ریکارڈنگ کی سہولت میسر بھی آتی اور ان کی آواز کو محفوظ بھی کیا جاتا تو سنگیت پریمی اپنا ووٹ استاد بڑے غلام علی خاں کے حق میں ہی ڈالتے۔

جو گویا سنگیت ریکارڈ کرائے گا مارا جائے گا، بڑے خاں صاحب نے اس تصور کو باطل ثابت کیا

پرانے وقتوں میں یہ مشہور تھا کہ جو گویا اپنا گانا ریکارڈ کرائے گا اسے موت آ جائے گی۔ یہ تصور اس لیے زور پکڑ گیا تھا کہ اتفاق سے اس زمانے میں بعض گویے اپنا سنگیت ریکارڈ کرانے کے بعد مر گئے تھے۔ تب یہ مشہور ہو گیا کہ جو گویا بھی سنگیت ریکارڈ کرائے گا اسے موت آجائے گی۔ لہذا بڑے بڑے گویے ریکارڈنگ کرانے سے گریز کرتے رہے۔ 

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ سنہ 1902 میں گوہر جان پہلی مغینہ تھیں جنھوں نے اپنے گانے کی ریکارڈنگ کرائی تھی۔ بنیادی طور پر گوہر جان کا نام انجلینا تھا جو ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ بعد ازاں وہ مسلمان ہوئیں اور ان کا نام گوہر جان تجویز کیا گیا۔ گوہر جان استاد بڑے غلام علی خاں کے چچا اور استاد کالے خاں کی شاگرد تھیں۔

استاد بڑے غلام علی خان

،تصویر کا ذریعہNAQI ALI KHAN

،تصویر کا کیپشن

استاد بڑے غلام علی خاں بابا بلھے شاہ سے منسوب شہر قصور میں 2 اپریل سنہ 1902 میں پیدا ہوئے

استاد بڑے غلام علی خاں نے اس خیال کو باطل قرار دیتے ہوئے نوجوانی میں ریکارڈنگز شروع کیں اور بہت سارا سنگیت ریکارڈ کرایا۔ استاد بڑے غلام علی خاں ایک روشن خیال استاد تھے جنھوں نے کلاسیکی موسیقی کو خواص اور عوام کو یوں متعارف کرایا جیسے یہ بھی پاپولر میوزک ہو۔ بڑے خاں صاحب نے بیسیوں راگ تین، تین منٹ کے ریکارڈ کرائے جنھیں گاتے ہوئے ان کے ہم عصر گویے صبح سے شام کر دیا کرتے تھے۔

لتا اور محمد رفیع کا معاوضہ 5 سو روپے جبکہ بڑے خاں صاحب کو 25 ہزار ادا کیا گیا

ساٹھ کی دہائی میں ہدایتکار کے آصف فلم 'مغل اعظم' بنا رہے تھے۔ فلم کے ایک منظر میں شاہی گویے میاں تان سین کی آواز کی ضرروت پڑی تو میوزک ڈائریکٹر نوشاد نے کے آصف سے کہا کہ تان سین کی آواز کے لیے ہمیں آج کے تان سین استاد بڑے غلام علی خاں سے درخواست کرنی چاہیے لیکن بڑے خاں صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے انکار کر دیا کیونکہ وہ فلمی میوزک کو اپنے شایان شان خیال نہیں کرتے تھے۔ 

استاد نے کہا کہ کلاسیکی موسیقی عوام کا نہیں خواص کا فن ہے، یہ میلوں ٹھیلوں اور نوٹنکیوں کے لیے نہیں۔ اسے سننے کے لیے دو سے تین سو اہل ذوق خاص طور پر محفل سجاتے ہیں، اس پر نوشاد نے کہا کہ استاد محترم اپنے عظیم فن سے ہندوستان کے 45 کروڑ عوام( اس وقت انڈیا کی آبادی) کو محروم نہ کیجیے۔ قصہ مختصر 'مغل اعظم' کے لیے استاد کی آواز ریکارڈ کرنے کا معاوضہ 25 ہزار روپے ادا کیا گیا۔ اس وقت لتا منگیشکر اور محمد رفیع جیسے مین سٹریم سنگرز چار سے پانچ سو روپے معاوضہ وصول کر رہے تھے۔

'مغل اعظم' جسے فلمی تاریخ میں ایک کلاسک کی حیثیت حاصل ہے اسے یادگار بنانے کے لیے استاد بڑے غلام علی خاں کی آواز نے بھی اپنا جادو جگایا تھا۔

استاد بڑے غلام علی خان

،تصویر کا ذریعہNAQI ALI KHAN

،تصویر کا کیپشن

دلیپ کمار، استاد بڑے غلام علی خاں اور برکت علی خاں

جہاں 40 جمعراتیں چراغاں کرنے سے حاجت مند سریلا ہو جاتا ہے

استاد بڑے غلام علی خان بابا بلھے شاہ سے منسوب شہر قصور میں 2 اپریل سنہ 1902 میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی طور ان کے گھرانے کو 'قصور گھرانہ' کہا گیا جو آگے چل کر پنجاب کے مشہور پیٹالہ گھرانے میں ضم ہو کر برصغیر کے سنگیت میں مستند اور منفرد کہلایا۔ 

آپ کے بزرگ اور جدِ امجد فاضل پیرداد غزنی سے آ کر قصور آباد ہوئے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ درویش صفت گویے تھے جو جنگلوں میں نکل گئے تھے۔ 

استاد بڑے غلام علی خاں کے پوتے مظہر علی خاں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بابا بلھے شاہ کے زمانے کا واقعہ ہے۔ قصور اور آس پاس کے علاقے میں مشہور تھا کہ جو کوئی بابا فاضل پیر داد کی قبر پر 40 جمعراتیں چراغاں کرے گا قدرت اسے سُر اور تال عطا کرے گی۔ 

استاد بڑے غلام علی خان کے والد علی بخش خاں اور چچا استاد کالے خاں اپنے زمانے کے بے مثل گویے تھے۔ دونوں صاحبان پیٹالہ گھرانہ کے استاد فتح علی خاں کے شاگرد ہوئے جس سے برصغیر کے سنگیت میں اور بھی وسعت آئی۔

میاں تان سین، امیر خسرو اور استاد بڑے غلام علی خان

کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو صدیوں میں یہ تین کردار اہم دکھائی دیتے ہیں۔ میاں تان سین کو مشرقی موسیقی کا جدِ امجد تسلیم کیا جایا ہے۔ امیر خسرو نے ساز اور راگ ایجاد کیے جبکہ استاد بڑے غلام علی خاں کو گویا اور موجد دونوں حیثیتوں میں مستند استاد مانا جاتا ہے۔ بڑے خاں صاحب کے بعد جس نے بھی گایا ان سے مستعار کیا۔ 

استاد بڑے غلام علی خان اور لتا

،تصویر کا ذریعہNAQI ALI KHAN

،تصویر کا کیپشن

لتا منگیشکر نے بتایا کہ استاد بڑے غلام علی خان انھیں اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھتے تھے

شام چوراسی گھرانے کے استاد نزاکت سلامت ہوں یا پیٹالہ گھرانے کے امانت علی فتح علی سب نے ان کے رنگ سے رنگ ملائے۔ استاد جی کا تخلص 'سب رنگ' تھا اور ان کا سنگیت واقعی اسم بامسمیٰ تھا۔ ان کے سنگیت میں ہر رنگ تھا۔ دنیائے سنگیت کے بڑے بڑے گویے، کہنہ مشق سازندے، موسیقار اور فلمی دنیا کے گلوکار سب براہ راست اور بلواسطہ بڑے خاں صاحب کے شاگرد ہوئے۔ 

اگرچہ بڑے غلام علی خاں فلمی میوزک کے خلاف تھے اور اس زمانے کی نئی صنف کو جھوٹ اور کوڑھ کہتے تھے لیکن فلم والوں نے استاد بڑے غلام کے سنگیت، راگ، راگنیوں اور خاص طور پر ٹھمریوں سے سیکھتے ہوئے فلمی میوزک کو ایک بہترین آرٹ کا درجہ دلایا۔ 

ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے

استاد بڑے غلام علی خاں کا ایک زمانہ مداح رہا۔ برصغیر میں کوئی ایسا نہیں جو ان کی فنی عظمت سے انکار کرتا ہو۔ ملکہ ترنم نور جہاں ان کی شاگرد تھیں۔ لتا منگیشکر، محمد رفیع، مناڈے، کشور کمار، آشا بھونسلے، مہدی حسن، طفیل نیازی، پروین سلطانہ، استاد حسین بخش گلو، غلام علی ،جگ جیت سنگھ، ہری ہرن، سریش واڈیکر، استاد نصرت فتح علی خاں، استاد راحت فتح علی خاں، استاد راشد علی خاں، پنڈت جسراج، پنڈت ہری پرساد چورسیا، شیوکمار شرما، طبلہ نواز استاد ذاکر خاں، استاد طافو، استاد تاری خاں، پنا لال گوش، ستارہ دیوی، بھیم شین جوشی سمیت ہر کوئی انھیں پسند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے فن سے استفادہ بھی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ 

لتا منگیشکر کی استاد بڑے غلام علی خاں کے حوالے سے یادیں

91 برس کی لتا منگیشکر کے میٹھے اور سُریلے لہجے کی کھنک قدرے برقرار ہے اور ٹیلی فون کے ذریعے ممبئی سے بات کرتے ہوئے ان کی مدھر آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ 

لتا منگیشکر نے بتایا کہ استاد بڑے غلام علی خاں جیسے فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ 

وہ کہتی ہیں 'میں وہ خوش نصیب جس نے انھیں کئی مرتبہ سامنے بیٹھ کر سنا ہے۔ استاد جی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور مجھے اپنی بیٹیوں جیسا سمجھتے تھے۔ وہ مجھے کہتے تھے کہ لتا تم میری بیٹی ہو۔'

لتا منگیشکر نے بتایا کہ استاد بڑے غلام علی خاں نے ان کے والد دینا ناتھ منگیشکر کی برسی پر گایا تھا۔

'مجھے یاد ہے استاد جی پنڈال میں سامنے بیٹھے تھے اور میں سٹیج پر گا رہی تھی، میرے ماتھے پر پسینہ تھا اورمیری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ خدا خدا کر کے میں نے گانا ختم کیا اور میری جان میں جان آئی۔ میں گاتے ہوئے کبھی گھبراتی نہیں تھی لیکن میرے ساتھ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ سامنے خاں صاحب براجمان تھے۔'

'میرے بعد استاد بڑے غلام علی نے گایا اور ایسا گایا کہ انھیں انسانوں کے ساتھ ساتھ ہواؤں، فضاؤں اور پرندوں نے بھی سنا۔ خاں صاحب نے آغاز میں خیال گائیکی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے راگ سنایا اور پھر اس میں ترانہ پیش کرتے ہوئے لے کاری کا بھی لاجواب مظاہرہ کیا۔ بعد ازاں خاں صاحب نے ٹھمریاں پیش کیں اور ٹھمر ی گانے میں تو انھیں کمال مہارت تھی۔ ٹھمری میں ان کا انداز بھی کمال رہا ہے۔ پنڈت دینا ناتھ منگیشکر کی یاد میں کرائے گئے جلسے میں استاد جی نے راگ اور ٹھمری گانے کے بعد غزلیں بھی سنائیں اور اس طرح یہ ایک یادگار پروگرام رہا تھا۔'

استاد بڑے غلام علی خان اور لتا

،تصویر کا ذریعہNAQI ALI KHAN

استاد جی نے لتا منگیشکر کے لیے کہا 'کم بخت کبھی بے سُری نہیں ہوتی'

لتا جی سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کے گانے کی تعریف کرتے ہوئے استاد جی نے یہ کہا تھا کہ 'کم بخت کبھی بے سُری ہی نہیں ہوتی'، تو لتا جی نے قہقہہ لگایا۔ 

پھر اپنی مسحور کن آواز میں کہنے لگیں: 'یہ بات مجھے ایک پنڈت جی نے بتائی تھی کہ استاد بڑے غلام علی خاں صاحب نے میرے کچھ فلمی گیت سنے اور کہا کہ کم بخت لتا کبھی بے سُری ہی نہیں ہوتی۔' 

یہ بات کرتے ہوئے لتا جی کو پنڈت جی کا نام بھی یاد آگیا تو انھوں نے بتایا کہ بڑے خاں صاحب نے یہ بات پنڈت جسراج سے کہی تھی۔ 

'پنڈت جی سے میں نے پوچھا تھا کہ استاد بڑے غلام علی خاں نے مجھے 'کم بخت' کہا تھا۔ اس پر پنڈت جی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہاں استاد نے تمہیں 'کم بخت' ہی کہا تھا۔ لتا جی نے کہا کہ ظاہری طور پر تو 'کم بخت' کے معنی کچھ اور ہیں لیکن یہ درویش صفت فنکار کی رمز ہے جسے میں اپنے لیے بہت بڑی خوش نصیبی خیال کرتی ہوں۔ سُروں اور سنگیت کے اتنے بڑے استاد نے مجھے یہ کہا کہ میں سُر میں گاتی ہوں تو یہ ان کی میرے لیے دعا ہی تھی۔'

برصغیر کی موسیقی استاد بڑے غلام علی خاں کی ممنون رہے گی 

استاد بڑے غلام علی خاں کے گائیکی کے انداز نے برصغیر کی کلاسیکی، نیم کلاسیکی اور خاص طور پر فلمی موسیقی پر کیا اثرات مرتب کیے؟

اس سوال کے جواب میں لتا جی نے کہا کہ فلمی موسیقی ٹھمری سے کشید اور مستعار کی گئی ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا استاد بڑے غلام علی خاں ٹھمری کے بھی کمال گویے تھے، ان کی گائی ہوئی ٹھمریاں بہت سے موسیقاروں نے مستعار کیں۔

'کا کروں سجنی آئے نا بالم'، یہ راگ جنگلہ بھیرویں میں خاں صاحب کی گائی مشہور ٹھمری ہے اسے فلم میں شامل کیا گیا تھا۔

'پریم جوگن بن کے سندر پیا اور چلی رے'، استاد بڑے غلام علی خاں نے یہ ٹھمری راگ سوھنی میں گائی تھی۔ یہ ٹھمری نوشاد صاحب نے فلم 'مغل اعظم' کے لیے خاں صاحب سے گوائی تھی۔ 

اسی طرح خاں صاحب کی راگ بھیرویں میں گائی ٹھمری 'نیناں مورے ترس گئے آ جا بلم پردیسی' بھی فلم میں شامل کی گئی۔

استاد بڑے غلام علی خان

،تصویر کا ذریعہNAQI ALI KHAN

،تصویر کا کیپشن

استاد بڑے غلام علی، استاد برکت علی اور نور جہاں

بڑے خاں صاحب فلمی میوزک کو جھوٹ اور کلاسیکی موسیقی کو سچ کہا کرتے تھے

ہندوستان میں فلمی موسیقی ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھی تو ان دنوں استاد بڑے غلام علی خاں نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ راگ اور کلاسیکی موسیقی سچائی ہے جبکہ فلمی میوزک کھوٹ، کوڑھ اور جھوٹ ہے لہذا یہ پنپ نہ سکے گا؟ 

اس سوال کے جواب میں لتا جی نے کہا کہ ایسا میں نے نہیں سنا کہ استاد بڑے غلام علی خاں فلمی میوزک کے خلاف تھے۔ 

انھوں نے کہا کہ 'خاں صاحب میری تو ہمیشہ تعریف ہی کرتے تھے۔ جیسا کہ میں نے بتایاکہ استاد بڑے غلام علی خاں مجھے اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھتے تھے اور میرے پاس ان کی ایک تصویر ہے جس میں انھوں نے اپنا ہاتھ میرے سرپر رکھا ہوا ہے۔ وہ تصویر میرے لیے ایک سرمایے کی حیثیت رکھتی ہے۔'

نورجہاں کو گنڈا استاد جی نے باندھا، لتاجی کو گنڈا کس نے باندھا؟

لتا منگیشکر نے بتایا کہ نور جہاں کو استا د جی نے گنڈا باندھا تھا اور ویسے بھی وہ جگت استاد تھے اور سبھی نے شعوری اور لاشعوری طور پر ان سے سیکھا ہے لیکن مجھے سب سے پہلے میرے والد دینا ناتھ منگیشکر نے پانچ سال کی عمر میں گنڈا باندھا تھا۔ 

'بعد ازاں مجھے امان اللہ خاں صاحب بھنڈی بازار والوں نے گنڈا باندھا اور سیکھایا۔ میں نے امانت علی خاں صاحب سے بھی گنڈا بندھوایا اور ان سے بھی سیکھا۔'

لتا جی نے بتایاک ہ وہ کئی برسوں سے 23 اپریل کو استاد بڑے غلام علی خاں اور 24 اپریل کو اپنے آنجہانی والد پنڈت دینا ناتھ منگیشکر کی برسی منا رہی ہیں۔ ان تقاریب میں برصغیر کے عظیم فنکار شرکت کرتے ہیں لیکن اس بار چونکہ دنیا سمیت انڈیا کو کووڈ 19 کے شدید حملے کا سامنا ہے اس لیے اس بار موسیقی کا جلسہ نہ ہو پائے گا۔

جب بڑے خاں صاحب نے 9 برس کی پروین سلطانہ کو گانے کے لیے کہا

انڈیا کی نامور کلاسیکی گائیکہ بیگم پروین سلطانہ جنھیں خیال گائیکی کے ساتھ ساتھ ٹھمری اور غزل گانے میں بھی شہرت حاصل ہے، ان کا گایا ایک غزلیہ انگ کا گیت جسے آر ڈی برمن نے کمپوز کیا تھا 'ہمیں تم سے پیار کتنا ،یہ ہم نہیں جانتے' بہت مشہور ہوا تھا۔ 

بیگم پروین سلطانہ نے آسام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں جب میں نے استاد بڑے غلام علی خاں کا کوئی راگ یا ٹھمری نہ سنی ہوں۔ 

استاد بڑے غلام علی خان

،تصویر کا ذریعہNAQI ALI KHAN

،تصویر کا کیپشن

استاد بڑے غلام علی خان اپنے پوتوں کے ساتھ

وہ کہتی ہیں 'میں تو ان کے سنگیت کی دیوانی ہوں اور ان کا گانا سن کر میں بڑی ہوئی ہوں۔ میں وہ خوش نصیب ہوں کہ مجھے استاد جی کے سامنے گانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ میرے والد اکرام اللہ مجید بھی بڑے خاں صاحب کے عاشقوں میں شامل تھے۔ خاں صاحب نے میرے والد کو کہا کہ پروین کچھ گا کر سنائے تو میں نے نو سال کی عمر میں گانا سنایا تو انھوں نے مجھے دعا دی تھی۔ '

'خاں صاحب نے فرمایا تھا کہ پروردگار نے اسے خوبصورت آواز عنایت کی ہے یہ بہت نام پیدا کرے گی۔ خاں صاحب سے میری ملاقاتیں کلکتہ اور ممبئی میں ہوتی رہیں۔ ابتدائی طور پر مجھے پیٹالہ گھرانہ کی تعلیم ملی۔ مجھے استاد چن موئے لہری نے گنڈا باندھا تھا جو استاد بڑے غلام علی خاں کے شاگردوں میں سے تھے۔ ان کے بعد میں نے اپنے شوہر استاد دلشاد خان سے بھی سیکھا۔ میرے شوہر بھی استاد بڑے غلام علی خاں کے عاشقوں میں سے ہیں۔'

طبلہ نواز ذاکر خاں پبلک ٹرانسپورٹ پر خاں صاحب کے گھر کیا کرنے جاتے تھے؟

بین الاقوامی شہرت یافتہ انڈین طبلہ نواز استاد ذاکر خاں نے کہا کہ استاد بڑے غلام علی خاں صدیوں کے فنکار ہیں۔ انھوں نے کلاسیکی موسیقی کو ترقی دی، اسے نکھارا سنوارا لیکن روایت کے ساتھ جوڑ کر بھی رکھا۔ 

ذاکر خاں نے کہا کہ 'میرے پاس بڑے خاں صاحب کی بہت خوشگوار یادیں ہیں۔ میں بہت چھوٹا تھا تو اپنی والدہ اور والد استاد اللہ رکھا خاں کے ساتھ ممبئی مالا بار میں بڑے خاں صاحب کے بنگلے پر جایا کرتا تھا۔ ہم سب بہن بھائی انھیں پھوپھا جان کہا کرتے تھے۔ تھوڑی ہوش آئی تو پھوپھا جان کہنا چھوڑ کر بڑے خاں صاحب کہنا شروع کیا کیونکہ ہم جان چکے تھے کہ وہ کتنے بڑے فنکار ہیں۔'

'جب اور بڑا ہوا تو پبلک ٹرانسپورٹ پر بیٹھ کر خاں صاحب کے ہاں چلا جاتا تھا۔ وہ ہر وقت ریاض کر رہے ہوتے تھے اور مجھے ساتھ بیٹھا لیتے تھے۔'

ذاکر خاں نے تفاخرانہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا کہ خاں صاحب تو اپنا معمول کا ریاض کر رہے ہوتے تھے اور ہماری زندگی کے لیے یہ ایک عظیم یادداشت کے طور پرمحفوظ ہو رہا ہوتا تھا۔

بڑے خاں صاحب نے پاکستان چھوڑ کر انڈین شہریت کیوں اختیار کی؟ 

متحدہ ہندوستان میں استاد بڑے غلام علی خاں ہر دلعزیز گائیک اور جگت استاد تسلیم کیے جا چکے تھے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ 'فادر آف دی نیشن' باپو گاندھی اور پوری قوم استاد بڑے غلام علی خاں کی منتظر تھی۔ 

دوسری طرف پاکستان میں ریاستی، معاشرتی اور عوامی طور پر فنون لطیفہ اور اس کے وابستگان کو حقیر جان کر 'میراثی' لکھا اور پکارا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود استاد بڑے غلام علی خاں اور دیگر بہت سے فنکار جن میں نور جہاں، استاد فتح علی خاں، امانت علی خاں، استاد نزاکت سلامت، استاد فتح علی خاں، مبارک علی خاں (استاد نصرت فتح علی خاں کے والداور تایا) استاد غلام حسن شنگن، مہدی حسن، طفیل نیازی اپنے گھر بار چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔ 

وقت کا پہیہ چلا، زندگی آگے بڑھی لیکن تنگ نظر ی بڑھتی گئی اور تنگ نظری نے رفتہ رفتہ انتہا پسندی کی شکل اختیار کر لی۔ 

اگر انفرادی طور پر اس تاریخی واقعہ کا جائزہ لیں کہ اتنے عظیم استاد نے اپنی جنم بھومی چھوڑ کر انڈین شہریت کیوں اختیار کی؟ تو حقائق کچھ اس طرح سے ہیں۔ 

استاد بڑے غلام علی خان کا گھر

،تصویر کا ذریعہNAQI ALI KHAN

،تصویر کا کیپشن

ممبئی مالا بار میں استاد بڑے غلام علی خان کا بنگلہ

اصل واقعہ کیا ہوا؟

زیڈ اے بخاری ریڈیو پاکستان کے پہلے جنرل مینیجر تھے۔ آپ پطرس بخاری کے بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پائے کے براڈکاسٹر بھی تھے۔ اردو، انگریزی، عربی، فارسی کے علاوہ بھی زبانیں جانتے تھے اور انھیں موسیقی سے بھی رغبت تھی۔

اس وقت ریاستی سطح پر یہ شعوری کوشش بھی کی جا رہی تھی کہ ہم پاکستانی ایک الگ قوم ہیں، جن کا اپنا مذہب اور اپنی ثقافت ہے۔ 

اس مہم کے تحت کلاسیکی موسیقی میں خیال گائیکی اور ٹھمری کو ہندوستانی موسیقی سمجھتے ہوئے غزل کو شعوری طور پر آگے کیا جا رہا تھا۔ مختلف راگ راگنیوں جن کے نام سنسکرت اور ہندی پر مشتمل تھے انھیں پاکستانی عنوانات دیے جارہے تھے۔

اسی ضمن میں زیڈ اے بخاری نے ایک کتا ب 'راگ دریا' کے نام سے ترتیب دی جس میں لگ بھگ ایک سو بندشیں شامل کی گئیں۔ اساتذہ فن کا اعتراض تھا کہ وہ ناقص استھائی انترے تھے جن میں زیادہ تر نقل کر کے ان میں اردو، فارسی اور عربی تراکیب استعمال کی گئی تھیں۔ 

راگ اور راگنیوں سے سنسکرت اور ہندی الفاظ ختم کرنے کی مہم چلائی گئی 

استاد بڑے غلام علی خاں اپنے قصور اور پیٹالہ گھرانے کی استھائیاں گاتے تھے۔ ان میں جا بجا سنسکرت اور ہندی الفاظ اور تراکیب استعمال کی گئی تھیں۔ کلاسیکی موسیقی اس خطے کے عظیم ماضی کا ایک ثقافتی ورثہ تھا جسے زبردستی بدلنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ 

اسی ماحول میں زیڈاے بخاری اور استاد بڑے غلام علی خاں میں تو تکرار ہو گئی۔ استاد بڑے غلام علی خاں کے پوتے نقی علی خاں بتاتے ہیں کہ بڑے خاں صاحب ہاتھ میں تھامی چھڑی کے ساتھ بخاری صاحب کے کمرے کی چق اٹھا کر اندر گئے تو زیڈ بخاری نے ناشگفتہ انداز میں کہا 'آپ بلا اجازت میرے کمرے میں کیسے داخل ہو گئے؟'

'بڑے خاں صاحب کو یہ انداز ناگوار گزرا کہ ایک سرکاری ملازم جو دراصل عوام کا خادم ہوتا ہے اس کے یہ لچھن۔ بڑے خاں صاحب نے کہا کہ بخاری صاحب آپ جیسے بی اے تو اس ملک میں ہزاروں لاکھوں ہوں گے لیکن غلام علی ایک ہی ہے۔'

ایوب اولیا نے بتایا کہ سینیئر میوزک ڈائریکٹر رفیق غزنوی نے دیکھا کہ بڑے خاں صاحب جنرل مینیجر کے کمرے کے باہر اس خیال سے بیٹھے ہیں کہ معاملہ کو رفع دفع کیا جائے لیکن دوسری طرف وہ افسر شاہانہ بن گئے اور انھوں نے برصغیر کے اس عظیم فنکار کو نظر انداز کیا۔ 

ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل مرتضی سولنگی نے بتایا کہ بڑے خاں صاحب تنازعہ ختم کرنے کے لیے زیڈ اے بخاری کے دفتر گئے تھے لیکن انھوں نے اتنے بڑے فنکار کو باہر بٹھایا اور چپڑاسی سے کہا کہ 'بیٹھے رہنے دو میراثی کو باہر۔' 

کہتے ہیں کہ یہ آواز استاد محترم نے سن لی تھی اور وہیں انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اب پاکستان میں نہیں رہیں گے۔

اندرا گاندھی کا نوٹیفیکشن

،تصویر کا ذریعہNAQI ALI KHAN

،تصویر کا کیپشن

انڈیا کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے 26 اگست 1969 کو تحریری طور پر ایک خط کے ذریعے استاد بڑے غلام علی خاں کو بھرپور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہر سال ان کا دن منانے کا اعلان کیا

ٹاٹا برلا اور انڈین اسٹیبلشمنٹ خاں صاحب کو کیا پیشکش کرتی رہی؟

بڑے خاں صاحب کے پوتے نقی علی نے بتایا کہ انڈیا کی کاروباری اشرافیہ جن میں ٹاٹا اور برلا انڈسٹریز کے روح رواں سمیت انڈین اسٹیبلشمنٹ کے سرخیل شامل تھے، وہ ہمیشہ خاں صاحب کو پیشکش کرتے تھے کہ خاں صاحب آپ انڈیا منتقل ہو جائیں تو ریاست آپ کو پلکوں پر بٹھائے گی لیکن خاں صاحب ان کی پیشکش پر کان نہ دھرتے اور اپنے گھر پاکستان لاہور میں آتے رہے۔ 

لاہور اس وقت پورے خطے میں موسیقی کا گڑھ مانا جاتا تھا اور مشہور تھا کہ جس نے لاہور میں جھنڈا نہیں گاڑا وہ کامیاب نہیں ہوا۔ 

خاں صاحب کو لاہور بہت پسند تھا وہ پاکستان سے بھی محبت کرتے تھے اس لیے انڈیا کی طرف سے تمام پیشکش ٹھکرا کر یہاں واپس آتے رہے لیکن جب انھیں مجبور کیا گیا تو وہ بحری جہاز کے ذریعے کراچی سے ممبئی چلے گئے جہاں انڈین کاروباری اشرافیہ نے انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور سرکاری طور پر ممبئی مالا بار میں بنگلے کے ساتھ ساتھ انڈین شہریت اور مراعات دیں۔ 

انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کا خط اور 56سال بعد استادکی آواز کا ریڈیو پر گونجنا

66 برس کی عمر میں استاد محترم 23 اپریل 1968 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ دنیائے موسیقی نے ان کی موت کا غم شدت سے منایا۔ استاد محترم کو انڈیا میں سرکاری اور ریاستی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ 

انڈیا کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے 26 اگست 1969 کو تحریری طور پر ایک خط کے ذریعے استاد بڑے غلام علی خاں کو بھرپور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہر سال ان کا دن منانے کا اعلان کیا۔ 

مرتضیٰ سولنگی نے بتایا کہ سنہ 2009 میں جب وہ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے تو انھوں نے استاد بڑے غلام علی خاں کے گائے راگ اور راگنیوں سے پابندی اٹھا دی تھی۔

سنہ 1953 میں جب بڑے غلام علی خاں انڈیا منتقل ہو گئے تو ریڈیو پاکستان میں ان پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ زیڈ اے بخاری نے اس ضمن میں کوئی تحریری آرڈر تو نہیں کیا تھا لیکن لگ بھگ 56 سال تک ریڈیو پاکستان کو استاد محترم کی لافانی آواز سے محروم رکھا گیا۔ 

آدھی صدی سے زائد عرصہ بعد مرتضیٰ سولنگی نے بھی بغیر کسی تحریری حکم نامے کے ریڈیو پاکستان کو اس پابندی سے آزاد کرا دیا۔