Thursday 20 September 2018

نعت اُم جبیبہ عبدالرحمان جامی


*گل از رخت آموختہ نازک بدنی را
گلاب نے آپکے چہرے سے نزاکت کا درس لیا ہے
*بلبل زتو آموختہ شیریں سخنی را
بلبل نے آپکے تکلم سے شیریں کلامی سیکھی ہے

*ہر کس کہ لبِ لعل ترا دیدہ بہ دل گفت
جس نے بھی آپکے لعل گوں لب دیکھے تو دل (کی آواز) سے کہا 
*حقا کہ چہ خوش کندہ عقیقِ یمنی را
یقیناً اس یمنی عقیق کو بہت خوبصورتی سے تراشا گیا ہے
*خیاطِ ازل دوختہ بر قامتِ زیبا
آزل کے خیاط (یعنی الله تعالیٰ) نے آپکے خوبصورت قامت پر
*در قد توایں جامۂ سروِ چمنی را 
آپکے تن کو باغ کے سرو کی طرح سجایا ہے

*در عشقِ تو دندان شکستہ است بہ الفت
(جب حضرت اویس قرنی نے) آپکے عشق میں محبت کی وجہ سے اپنے دانت توڑ دیئے
*تو جامہ رسانید اویسِ قرنی را
تو آپ نے اویس قرنی کو اپنا لباس ارسال کیا 

*ازجامیِ بے چارا رسانید سلامے
بے چارے جامی کی طرف سے سلام پہنچا دو
*بر درگہہِ دربارِ رسولِ مدنی را
رسول مدنی کے دربار کے حضور

فیض احمد فیض مرثیہ محرم

مرثیۂ امام

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی
رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار
اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار
تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار
مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے
ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل
الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل
بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل
وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل
بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو
باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی
اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی
نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی
دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا
خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا
تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا
ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا
یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا
کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے
خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

فرمایا کہ کیوں درپۓ ‌آزار ہو لوگو
حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو
واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو
معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو
کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے
معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو
اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو
زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو
سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار
انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا
تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا
جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا
جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا
نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر
پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر
قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر
خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر
مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا


Nawaz sharif

Sunday 16 September 2018

جو بات مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اور معاشرہ بہت ہی منقسم ہو چکا ہے اور تقسیم بڑھتی جا رہی ہے 
ہم میں سے اکثر نے سیاسی لیڈروں کو صرف دو ہی خانوں میں بانٹ رکھا ہے
یا تو وہ ہیروز ہیں یا پھر ولن 
اب جو ہمارے ہیروز ہیں ان کی ہر بات پر واہ واہ ہے 
اور جو ہمارے ولن ہیں ان ہر بات ایکشن پر اعتراض ہے 
سچ شاید اس سے بہت زیادہ complex اور درمیان میں ہے 
ہمارے ولن کے اندر بھی کچھ اچھی باتیں حقتیں ہیں 
اور ہمارے ہیروز بھی کئی جگہوں پر غلط کمزور اور   fallible ہیں 
ہم سب کا یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے

نمی دانم لال شہباز قلندر


نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم 
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم 

نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔ 

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم 
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم 

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔ 

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی 
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم 

تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔ 

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں 
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم 

آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔ 

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے 
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم 

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔ 

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را 
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم 

واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔ 

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم 
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم 

میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔