Friday 31 August 2018

جب پرتگالیوں نے ہندوستان کی تاریخ پلٹ کر رکھ دی

جب پرتگالیوں نے ہندوستان کی تاریخ پلٹ کر رکھ دی

  • 9 جولائ 2018
واسکو دے گاماتصویر کے کاپی رائٹ Archives of the University of the Witwatersrand
Image caption واسکو دے گاما سفر پر روانہ ہونے سے قبل بحری نقشے وصول کرتے ہوئے
آٹھ جولائی، 1497، ہفتے کا دن، وہ دن جس کا انتخاب پرتگال کے شاہی نجومیوں نے بڑی احتیاط سے کیا ہے۔
دارالحکومت لزبن کی گلیوں میں جشن کا سا سماں ہے، لوگ جلوس کی شکل میں ساحل کا رخ کر رہے ہیں جہاں چار نئے نکور جہاز ایک لمبے سفر کا آغاز کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ شہر کے تمام سرکردہ پادری بھی زرق برق لباس پہنے آشیرواد دینے پہنچ گئے ہیں اور ہم آہنگ ہو کر مناجاتیں گا رہے ہیں اور ہجوم ان کی آواز سے آواز ملا رہا ہے۔
بادشاہ دوم مینوئل اس مہم میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں اور انھوں نے اس کی کامیابی کے لیے خزانے کے منھ کھول دیے ہیں۔ واسکو دے گاما کی قیادت میں چاروں جہاز طویل بحری سفر کے لیے درکار جدید ترین آلات اور زمینی و آسمانی نقشوں سے لیس ہیں، ساتھ ہی ساتھ ان پر اس دور کی جدید ترین توپیں بھی نصب ہیں۔ جہاز کے عملے کے 170 کے قریب جوؤں نے بغیر آستینوں والی قمیصیں پہن رکھی ہیں، ان کے ہاتھوں میں جلتی ہوئی موم بتیاں ہیں اور وہ ایک فوجی دستے کی طرح جہازوں کی طرف سست روی سے مارچ کر رہے ہیں۔
یہ لوگ اس منظر کی ایک جھلک دیکھنے اور ملاحوں کو رخصت کرنے پہنچے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں غم اور خوشی کے ملے جلے آنسو ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ برسوں پر محیط اس سفر پر جانے والوں میں سے بہت سے، یا شاید سبھی، واپس نہیں آ سکیں گے۔ اس سے بڑھ کر انھیں یہ بھی احساس ہے کہ اگر سفر کامیاب رہا تو یورپ کے ایک کھدرے میں واقع چھوٹا سا ملک پرتگال دنیا کی تاریخ کا ایک نیا ورق الٹنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

تاریخ کی نئی کروٹ

یہ احساس درست ثابت ہوا۔ دس ماہ اور 12 دن بعد جب یہ بحری بیڑا جنوبی ہندوستان کے ساحل پر اترا تو اس کی بدولت یورپ کی بحری تنہائی ختم ہو گئی، دنیا کی مخالف سمتوں میں واقع مشرق و مغرب پہلی بار سمندری راستے سے ایک دوسرے سے نہ صرف جڑے بلکہ ٹکرا گئے، بحرِ اوقیانوس اور بحرِ ہند آپس میں منسلک ہو کر ایک شاہراہ بن گئے اور دنیا کی تاریخ نے ایک نئی کروٹ بدلی۔
دوسری طرف یہ کسی یورپی ملک کی جانب سے ایشیا و افریقہ میں نوآبادیات قائم کرنے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا، جس کے باعث درجنوں ملک صدیوں تک بدترین استحصال کی چکی میں پستے رہے جس سے نکلنے کی خاطر وہ آج بھی ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔
اس واقعے نے برصغیر کی تاریخ کو بھی یوں جھنجھوڑ دیا کہ آج ہم جو زندگی گزار رہے ہیں، واسکو دے گاما کے اس سفر کے بغیر اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اس تاریخ ساز سفر کی بدولت برصغیر بلکہ تمام ایشیا پہلی بار مکئی، آلو، ٹماٹر، سرخ مرچ اور تمباکو جیسی فصلوں سے روشناس ہوا جن کے بغیر آج کی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
پرتگالیوں نے برصغیر کی ثقافت کو کس طرح متاثر کیا؟ اس کی مثال حاصل کرنے کے لیے جب آپ بالٹی سے پانی انڈیل کر صابن سے ہاتھ دھو کر تولیے سے سکھاتے ہیں اور اپنے ورانڈے میں فیتے سے ناپ کر مستری سے ایک فالتو کمرا بنواتے ہیں اور پھر نیلام گھر جا کر اس کمرے کے لیے الماری، میز اور صوفہ خرید لاتے ہیں اور پھر چائے پرچ میں ڈال کر پیتے ہیں تو ایک ہی اردو فقرے میں پرتگالی کے 15 الفاظ استعمال کر چکے ہوتے ہیں۔

ہندوستان میں غیر معمولی دلچسپی

واسکو دے گاماتصویر کے کاپی رائٹ António Manuel da Fonseca
Image caption واسکو دے گاما
یہ پرتگال کی ہندوستان تک پہنچنے کی پہلی کوشش نہیں تھی۔ مغربی یورپ کا یہ چھوٹا سا ملک کئی عشروں سے افریقہ کے مغربی ساحل کی نقشہ بندی کر رہا تھا، اور اس دوران سینکڑوں ملاحوں کی قربانی بھی دے چکا تھا۔
آخر یورپی پرتگال کو ہندوستان میں اس قدر دلچسپی کیوں تھی کہ وہ اس پر اس قدر وسائل جھونکنے کے لیے آمادہ ہو گیا؟
ابھی کچھ ہی عشرے قبل 1453 میں عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ پر قبضہ کر کے یورپ کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔ اب مشرق سے تمام تر تجارت عثمانیوں یا پھر مصری مملوکوں کے ذریعے ہی ممکن تھی جو ہندوستان اور ایشیا کے دوسرے علاقوں سے درآمد ہونے والی مصنوعات، خاص طور پر مسالہ جات پر بھاری ٹیکس وصول کرتے تھے۔
دوسری طرف خود یورپ کے اندر وینس اور جینوا نے ایشیا کے ساتھ زمینی راستوں سے ہونے والی تجارت پر اجارہ داری قائم کر رکھی تھی جس سے دوسرے یورپی ملکوں، خاص طور پر سپین اور پرتگال کو بڑی پرخاش تھی۔ یہی وجہ ہے کہ واسکو دے گاما کے سفر سے پانچ سال قبل سپین نے کرسٹوفر کولمبس کی قیادت میں مغربی راستے سے ہندوستان تک پہنچنے کے لیے ایک مہم روانہ کی تھی۔
لیکن پرتگالیوں کو معلوم تھا کہ کولمبس کی منصوبہ بندی خام اور اس کی معلومات ناقص ہیں اور وہ کبھی بھی ہندوستان نہیں پہنچ پائے گا۔ واقعی کولمبس مرتے دم تک سمجھتا رہا کہ وہ ہندوستان پہنچ گیا ہے، حالانکہ وہ حادثاتی طور پر ایک نیا براعظم دریافت کر بیٹھا۔
البتہ پرتگالیوں کی اپنی تحقیقات اور گذشتہ بحری مہمات سے معلوم ہوا تھا کہ اگر بحرِ اوقیانوس میں جنوب کی طرف سفر کیا جائے تو افریقہ کے لٹکتے ہوئے دامن کے نیچے سے ہو کر بحرِ ہند تک پہنچا اور ایشیا سے تجارت میں بقیہ یورپ کا پتہ کاٹا جا سکتا ہے۔
راستے میں پیش آنے والی بے پناہ مشکلات کے بعد واسکو دے گاما یورپی تاریخ میں پہلی بار افریقہ کے جنوبی ساحل کو عبور کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تاہم ہندوستان ابھی بھی ہزاروں میل دور تھا اور اس کا درست راستہ اختیار کرنا اندھیرے میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف تھا۔
واسکو دے گاما کا بحری سفر
خوش قسمتی سے اسے کینیا کے ساحلی شہر مالیندی سے ایک گجراتی مسلمان ناخدا مل گیا جو بحرِ ہند سے یوں واقف تھا جیسے اپنی ہتھیلی کی لکیروں سے۔
اس واقعے کی پانچ صدیوں بعد بھی عرب کشتی ران اس ملاح کی نسلوں کو کوستے ہیں جس نے 'فرنگیوں' پر بحرِ ہند کے اسرار کھول کر یہاں قائم ہزاروں سال پرانا تجارتی تانا بانا درہم برہم کر دیا۔

ہندو دیوی کو بی بی مریم سمجھ لیا

اسی ناخدا کی رہنمائی میں 20 مئی سنہ 1498 کو 12 ہزار میل کے سفر اور عملے کے درجنوں افراد گنوانے کے بعد واسکو دے گاما بالآخر ہندوستان میں کالی کٹ کے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
اس زمانے کے یورپ کی ہندوستان سے بےخبری کا اندازہ اس سے لگائیے کہ کالی کٹ میں قیام کے دوران واسکو دے گاما ہندوؤں کو کوئی گمراہ عیسائی فرقہ سمجھتا رہا۔ پرتگالی ملاح مندروں میں جا کر ہندو دیویوں کے مجسموں کو بی بی مریم کے مجسمے اور دیوتاؤں کو عیسائی اولیا سمجھ کر ان کے سامنے جھکتے رہے۔
واسکو دے گاما
Image caption واسکو دے گاما سمندری راجہ کے دربار میں
کالی کٹ کے 'سمندری راجہ' کہلائے جانے والے نے اپنے محل میں واسکو کا پرتپاک استقبال کیا۔ برستی بارش میں واسکو کو چھتری لگی پالکی میں بٹھا کر بندرگاہ سے دربار تک لایا گیا۔ لیکن یہ خوشگواری اس وقت تلخی میں بدل گئی جب اس زمانے کے دستور کے مطابق واسکو نے راجہ کو جو تحائف پیش کیے (سرخ رنگ کے ہیٹ، پیتل کے برتن، چند سیر چینی اور شہد) وہ اس قدر معمولی نکلے کہ وزیرِ مہمانداری نے انھیں راجہ کو دکھانے سے انکار کر دیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی حکام واسکو دے گاما کو کسی امیر کبیر ملک کے شاہی سفیر کی بجائے بحری قزاق سمجھنے لگے۔

لاجواب پرتگالی توپیں

سمندری راجہ نے واسکو کی جانب سے تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے اور پرتگالی تاجروں کا ٹیکس معاف کرنے کی درخواست رد کر دی۔ حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ مقامی لوگوں نے ہلہ بول کر کئی پرتگالیوں کو ہلاک کر ڈالا۔
واسکو دے گاما کے غیظ و غضب کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کے جہازوں میں جو توپیں نصب تھیں اس کا سمندری راجہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ انھوں نے کالی کٹ پر بمباری کر کے کئی عمارتیں، بشمول شاہی محل تباہ کر دیں، اور سمندری راجہ کو اندرون ملک فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔
سفارتی ناکامی اپنی جگہ، لیکن کالی کٹ میں تین ماہ کے قیام کے دوران یہاں کی منڈیوں سے واسکو کو بیش قیمت گرم مسالہ اتنی مقدار میں اور اتنے سستے داموں ہاتھ آیا کہ اس نے جہاز کے جہاز بھروا دیے۔
کالی کٹتصویر کے کاپی رائٹ CIVITATES ORBIS TERRARUM
Image caption کالی کٹ کی بندرگاہ کا ایک منظر

تمام عیسائی دنیا کے لیے مسالے

واپسی کا سفر بےحد مشکل ثابت ہوا، نصف عملہ بیماری اور ایک جہاز طوفان کا شکار ہو گیا۔ بالآخر لزبن سے روانگی کے تقریباً ٹھیک دو سال بعد دس جولائی 1499 کو 28 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد جب پرتگالی بیڑا واپس لزبن پہنچا (واسکو دے گاما اپنے بھائی کی بیماری کے باعث ایک جزیرے پر رک گیا تھا) تو ان کا شاہانہ استقبال کیا گیا۔ یہ الگ بات کہ 170 کے عملے میں سے صرف 54 آدمی زندہ لوٹ پائے تھے۔
شاہ ڈوم مینوئل نے یہ بات یقینی بنائی کہ تمام یورپ کو اس کی کامیابی کی فوری اطلاع مل جائے۔ انھوں نے سپین کی ملکہ ازابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کو خط لکھتے ہوئے مذہبی کارڈ کھیلنا ضروری سمجھا: 'خدا کے کرم سے وہ تجارت جو اس علاقے کے مسلمانوں کو مالدار بناتی ہے، اب ہماری سلطنت کے جہازوں تک منتقل ہو جائے گی اور یہ مسالہ جات تمام عیسائی دنیا کو فراہم کیے جائیں گے۔'
لیکن سوال یہ تھا کہ ایک چھوٹا سا ملک ہزاروں میل دور سے وسیع پیمانے پر قائم تجارتی نیٹ ورک کیسے توڑ پانے کی امید رکھ سکتا ہے؟

پرامن تجارتی رشتے

واسکو نے کالی کٹ میں اپنے قیام کے دوران مسلمانوں کے کم از کم 15 سو جہاز گنے تھے۔ لیکن اس نے ایک دلچسپ بات بھی نوٹ کی تھی: یہ جہاز اکثر و بیشتر غیر مسلح ہوا کرتے تھے۔ بحرِ ہند میں ہونے والی تجارت بقائے باہمی کے اصولوں پر قائم تھی اور محصول اس طرح طے کیا جاتا تھا کہ دونوں اطراف کو فائدہ ہو۔
پرتگال ان اصولوں پر کام نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کا مقصد طاقت کے ذریعے اپنی اجارہ داری قائم کر کے تمام دوسرے فریقوں کو اپنی شرائط پر مغلوب بنانا تھا۔
جلد ہی اس منصوبے کے خد و خال واضح ہو گئے۔ واسکو دے گاما کی آمد کے چھ ماہ کے اندر اندر جب پیدرو الواریس کبرال کی قیادت میں دوسرا پرتگالی بیڑا ہندوستان کی سمت روانہ ہوا تو اس میں 13 جہاز شامل تھے اور اس کی تیاری تجارتی مہم سے زیادہ جنگی کارروائی کی تھی۔

’ہر ممکن فائدہ‘

کبرال کو پرتگالی بادشاہ نے جو تحریری ہدایت نامہ دیا اس سے عزائم واضح ہو جاتے ہیں:
'تمھیں سمندر میں مکہ کے مسلمانوں کا جو بھی جہاز ملے اس پر ہر ممکن کوشش کر کے قبضہ کرو، اور اس پر لدے مالِ تجارت اور سامان اور جہاز پر موجود مسلمانوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرو، ان سے جنگ کرو اور جتنا تم سے ہو سکے، انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرو۔'
ان ہدایات کی روشنی میں مسلح بیڑے نے کالی کٹ پہنچ کر مسلمان تاجروں کے جہازوں پر حملہ کر کے سامانِ تجارت پر قبضہ کر لیا اور جہازوں کو مسافروں اور عملے سمیت آگ لگا دی۔
اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے کبرال نے کالی کٹ پر دو دن تک بمباری کر کے شہریوں کو گھر بار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کوچین اور کنور کی بندرگاہوں پر اترا تو وہاں کے راجاؤں تک افسانے پہلے ہی سے پہنچ چکے تھے، اس لیے انھوں نے پرتگالیوں کو ان کی شرائط پر تجارتی مراکز قائم کرنے کی 'اجازت' دے دی۔
پرتگالیتصویر کے کاپی رائٹ Biblioteca Nacional de Portugal
Image caption کوچین کی جنگ میں پرتگالیوں کی فتح کا منظر
کبرال کے مسالہ جات سے لدے جہاز جب واپس پرتگال پہنچے تو جتنے شادیانے لزبن میں بجائے گئے، اس سے زیادہ ماتم وینس میں دیکھنے میں آیا۔ ایک تاریخ دان لکھتا ہے: 'یہ وینس کے لیے بری خبر ہے۔ وینس کے تاجر صحیح معنوں میں مشکل میں گِھر گئے ہیں۔'

گن بوٹ تجارت

یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ جب 1502 میں وینس کے جہاز مملوک اسکندریہ کی بندرگاہ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں مسالہ نہ ہونے کے برابر ہے اور جو ہے بھی، اس کی قیمتیں آسمان تک پہنچ چکی ہیں۔
اگلی بار جب واسکو دے گاما نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا تو اس کے تیور کچھ اور تھے۔ اس نے افریقہ کے مشرقی ساحلی شہروں کو بلاوجہ اور بلاامتیاز بمباری کا نشانہ بنایا اور خراج وصول کیے بغیر اور یہ وعدہ لیے بغیر کہ وہ آئندہ مسلمان تاجروں سے تجارت نہیں کریں گے، وہاں سے نہیں ٹلا۔
'گن بوٹ ڈپلومیسی' بلکہ گن بوٹ تجارت کی اس سے عمدہ مثال ملنا مشکل ہے۔
ہندوستان کے سفر کے دوران جو جہاز اس کے راستے میں آیا، وہ لوٹ کر ڈبو دیا گیا۔ اسی دوران حاجیوں کا ایک 'مِیری' نامی جہاز اس کے ہاتھ لگ گیا جس پر چار سو مسافر سوار تھے جو کالی کٹ سے مکہ جا رہے تھے۔
واسکو نے مسافروں کو باندھ کر جہاز کو آگ لگا دی۔ عینی شاہدین کے مطابق جلتے ہوئے جہاز کے عرشے پر عورتیں اپنے بچے ہاتھوں میں اٹھا کر رحم کی بھیک مانگتی رہیں اور واسکو اپنے جہاز سے تماشا دیکھتا رہا۔ مالابار کے ساحلوں پر آج بھی ’میری‘ کی تباہی کے نوحے پڑھے جاتے ہیں۔
اس کا واضح مقصد پورے خطے میں پرتگالی دہشت پھیلانا تھا۔
واسکو اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب رہا۔ یہ خبریں بحری راستوں پر سفر کرتے ہوئے بحرِ ہند کے طول و عرض میں پہنچ گئیں۔ ہندوستان کے ساحلی شہروں کے پاس برتر پرتگالی توپوں کے علاوہ ان کی جارحانہ ذہنیت کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ان کے پاس اب تجارتی کنجیاں واسکو کے حوالے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔
یہ اندھا دھند جارحیت مغربی استعمار کے اطلاق کی عملی مثال تھی۔ مقامی راجاؤں کے لیے یہ بات ناقابلِ یقین تھی کہ کوئی کسی کو سمندر میں سفر کرنے سے کیسے روک سکتا ہے؟

بحری قزاقی

ایشیا میں واسکو کے یہ اقدامات تجارت کی بجائے بحری قزاقی سمجھے گئے لیکن یورپ میں یہ روزمرہ کا معمول تھا۔ پرتگالی دوسرے یورپی ملکوں سے سرتوڑ مسابقت، تجارت میں فوجی طاقت کے عمل دخل اور فوجی طاقت میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کے عادی تھے۔
یہ تمام بحرِ ہند پر پرتگالی اجارہ داری کا آغاز تھا۔ مقامی راجاؤں نے مقدور بھر مزاحمت کی کوشش کی، لیکن ہر مڈبھیڑ میں انھیں ہار کا منھ دیکھنا پڑا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آنے والی ڈیڑھ صدیوں میں پرتگالیوں نے کنّور، کوچین، گوا، مدراس اور کالی کٹ کے علاوہ کئی دوسرے ساحلی علاقوں میں سمندر پار مقبوضہ حکومت قائم کر لی اور وہاں اپنے وائسرائے اور گورنر مقرر کرنے لگے۔
دوسرے یورپی ملک یہ تمام کھیل بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے اور یہی عمل بعد میں ولندیزیوں، فرانسیسیوں اور بالآخر انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں دہرایا اور پرتگالیوں کو انھی کے کھیل میں شکست دے کر نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے بحرِ ہند پر قبضہ جما لیا۔ صرف گوا، دمن اور دیو کے علاقے برصغیر کی آزادی تک پرتگالیوں کے پاس رہے۔ آخر دسمبر سنہ 1961 میں انڈیا نے فوجیں بھیج کر یہ تینوں علاقے پرتگالیوں سے چھین لیے۔

تجارتی نیٹ ورک

لیکن اس سے قبل کی ڈیڑھ صدیوں تک پرتگالی ہندوستان سے گرم مسالہ، ادرک، الائچی، لونگ اور کپڑا، ملایا سے دارچینی، چین سے ریشم اور برتن یورپ لے جاتے اور وہاں سے اس کے ساتھ ہی وہ یورپی شراب، اون، سونا اور دوسری مصنوعات ایشیا کے مختلف علاقوں میں فروخت کرنے لگے۔ یہی نہیں، بلکہ وہ ایشیا اور افریقہ کے مختلف حصوں کے درمیان تجارتی سرگرمیوں پر بھی قابض ہو گئے اور دوسرے تمام تاجروں سے بھاری محصول وصول کرنے لگے۔
اسی دوران براعظم امریکہ دریافت ہو چکا تھا اور وہاں سپین کے علاوہ خود پرتگال اور دوسرے یورپی ملکوں نے نوآبادیاں قائم کرنا شروع کر دی تھیں۔
پرتگالیوں نے اس نئی دنیا سے مکئی، آلو، تمباکو، ٹماٹر، انناس، کاجو اور سرخ مرچ لا کر ہندوستان اور ایشیا کے دوسرے حصوں میں متعارف کروائیں۔ آج بہت سے لوگوں کو سرخ مرچ ہندوستانی کھانوں کا لازمی جزو معلوم ہوتی ہے، لیکن پرتگالیوں سے پہلے یہاں کے لوگ اس سے واقف نہ تھے۔

مشترکہ زبان

لیکن پرتگالیوں کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات صرف فوجی اور تجارتی نہ رہے، بلکہ تہذیب و تمدن کے دوسرے شعبے بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
پرتگالی زبان کئی صدیوں تک بحرِ ہند کی بندرگاہوں کی مشترکہ زبان رہی۔ یہاں تک کہ ولندیزیوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں تک ہندوستان آنے کے بعد مقامی لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے اول اول پرتگالی سیکھنا پڑی۔
حتیٰ کہ سراج الدولہ کو شکست دینے والا لارڈ کلائیو بھی مقامی ہندوستانیوں کے ساتھ پرتگالی ہی میں بات چیت کیا کرتا تھا۔ اس زبان کا اثر مقامی زبانوں پر بھی پڑا، چنانچہ برصغیر کی 50 سے زائد زبانوں میں پرتگالی کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔
مغل تصویر
Image caption یورپی انداز سے متاثر ہو کر 1590 میں اکبر کے دور میں بنائی گئی ایک تصویر
ہم نے اوپر اردو زبان میں مستعمل پرتگالی الفاظ کا ذکر کیا تھا۔ ایسے ہی کچھ اور الفاظ میں چابی، پادری، گرجا، انگریز، انگریزی، پیپا، باسن، گودام، استری، کاج، پرات، بھتہ، پگار (تنخواہ)، الفانسو (آم)، پپایا، تمباکو، مارتوڑ، بمبا، مستول وغیرہ شامل ہیں۔

مغلوں کو سمندر سے دلچسپی نہیں تھی

1526 میں بابر نے جب ہندوستان میں مغل سلطنت کی داغ بیل ڈالی، اس وقت تک پرتگالی تمام ساحلی علاقوں پر قدم جما چکے تھے۔ تاہم مغل خشکی سے گھرے وسطی ایشیا سے آئے تھے اور انھوں نے سمندر کا منھ تک نہیں دیکھا تھا، اس لیے انھوں نے سمندری معاملات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ پرتگالیوں نے مغلوں سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے اور اکبر، جہانگیر اور شاہجہان کو تحفے تحائف بھیجتے رہے۔
خاص طور پر یورپی پینٹنگز نے مغلوں کو متاثر کیا اور ان کا اثر مغلیہ تصاویر پر نظر آتا ہے۔
برصغیر کو پرتگالیوں کی ایک اور دین کے بغیر یہ تحریر نامکمل رہے گی۔ ہم سب بالی وڈ کے سنہرے دور کی موسیقی کے مداح ہیں۔ اس موسیقی کی ترویج میں گوا سے آنے والے پرتگالی نژاد موسیقاروں کا بڑا حصہ ہے جنھوں نے ہندوستانی میوزک ڈائریکٹرز کو میوزک ارینجمنٹ اور آرکسٹرا کا استعمال سکھایا۔
آج بھی اگر آپ شنکر جے کشن، ایس ڈی برمن، سی رام چندر، او پی نیئر، اور لکشمی کانت پیارے لال جیسے موسیقاروں کی فلمیں دیکھیں تو 'میوزک ارینجرز' کے ٹائٹل تلے آپ کو گونسالوس، فرنانڈو، ڈی سوزا، ڈی سلوا جیسے کئی پرتگالی نام نظر آئیں گے جو ایک گزرے ہوئے عہد کی داستان سناتے ہیں۔

دو خبریں فلاحی ریاست سے ١-"فوج کو تمام وسائل دیں گے" ٢-"این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کر دیا جایے"




















Wednesday 15 August 2018

برطانیہ ہندوستان سے کل کتنی دولت لوٹ کے لے گیا؟

برطانیہ ہندوستان سے کل کتنی دولت لوٹ کے لے گیا؟

سر ٹامس روتصویر کے کاپی رائٹ Getty Images Image caption سر ٹامس رو شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں
آج بادشاہ کی سالگرہ ہے اورمغل روایات کے مطابق انھیں تولا جانا ہے۔ اس موقعے پر برطانوی سفیر سر ٹامس رو بھی دربار میں موجود ہیں۔
تقریب پانی میں گھرے ایک چوکور چبوترے پر منعقد کی جا رہی ہے۔ چبوترے کے بیچوں بیچ ایک دیوہیکل طلائی ورق منڈھی ترازو نصب ہے۔ ایک پلڑے میں کئی ریشمی تھیلے رکھے ہوئے ہیں، دوسرے میں خود چوتھے مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر احتیاط سے سوار ہوئے۔
بھاری لبادوں، تاج اور زر و جواہر سمیت شہنشاہ جہانگیر کا وزن تقریباً ڈھائی سو پاؤنڈ نکلا۔ ایک پلڑے میں ظلِ الٰہی متمکن رہے، دوسرے میں رکھے ریشمی تھیلے باری باری تبدیل کیے جاتے رہے۔ پہلے مغل بادشاہ کو چاندی کے سکوں سے تولا گیا، جو فوراً ہی غریبوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اس کے بعد سونے کی باری آئی، پھر جواہرات، بعد میں ریشم، اور آخر میں دوسری بیش قیمت اجناس سے بادشاہ سلامت کے وزن کا تقابل کیا گیا۔
بی بی سی کی جانب سے مزید تاریخی تحریریں پڑھیے
منگول آندھی، جس سے بغداد آج تک سنبھل نہیں پایا
کتنا رنگیلا تھا محمد شاہ رنگیلا؟
حسن بن صباح کی جنت، فسانہ یا حقیقت؟
یہ وہ منظر ہے جو آج سے تقریباً ٹھیک چار سو سال قبل مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے دربار میں انگریز سفیر سر ٹامس رو نے دیکھا اور اپنی ڈائری میں قلم بند کر لیا۔ تاہم دولت کے اس خیرہ کن مظاہرے نے سر ٹامس کو شک میں ڈال دیا کہ کیا بند تھیلے واقعی ہیرے جواہرات یا سونے سے بھرے ہوئے ہیں، کہیں ان میں پتھر تو نہیں؟
سوال یہ ہے کہ ایک دور دراز کے چھوٹے سے جزیرے پر مشتمل ملک کا سفیر اس وقت ہندوستان میں کیا کر رہا تھا؟
سر ٹامس روImage caption سر ٹامس رو کی انتھک سفارتی جدوجہد سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سورت میں آزادانہ تجارت کا پروانہ مل گیا

انگلستان کے ساتھ معاہدہ 'شان کے خلاف'

دراصل سر ٹامس ایک خاص مشن پر ہندوستان آئے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح جہانگیر سے ایک معاہدے پر دستخط کروا لیں جس کے تحت ایک چھوٹی سی برطانوی کمپنی کو ہندوستان میں تجارتی حقوق حاصل ہو جائیں۔
لیکن جیسا کہ سر ٹامس کی طویل ڈائری سے پتہ چلتا ہے، یہ کام اتنا آسان نہیں ثابت ہوا اور اس سلسلے میں محنتی انگریز سفیر کو سخت پاپڑ بیلنا پڑے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مغل شہنشاہ پوری دنیا میں صرف ایران کے صفوی بادشاہ اور عثمانی خلیفہ کو اپنا مدِ مقابل سمجھتےتھے۔ ان کی نظر میں انگلستان ایک چھوٹا سا بےوقعت جزیرہ تھا، اس کے کسی معمولی بادشاہ کے ساتھ برابری کی سطح پر معاہدہ کرنا ان کی شان کے خلاف تھا۔
تاہم سر ٹامس نے ہمت نہیں ہاری، اور وہ تین سال کی ان تھک محنت، سفارتی داؤ پیچ اور تحفے تحائف دے کر جہانگیر سے تو نہیں، البتہ ولی عہد شاہجہان سے آج سے ٹھیک چار سو برس قبل اگست 1618 میں ایک معاہدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہو گئے جس کے تحت اس کمپنی کو سورت میں کھل کر کاروبار کرنے کا اجازت مل گئی۔
اس کمپنی کا نام ایسٹ انڈیا کمپنی تھا اور یہ واقعہ اس کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مغل حکومت نے براہِ راست ایک یورپی ملک کے ساتھ باقاعدہ تجارتی معاہدہ کر کے اس کی ایک کمپنی کو مراعات دی تھیں اور یوں اسے ہندوستان میں قدم جمانے کا پروانہ مل گیا تھا۔
یہ کچھ ایسا ہی واقعہ تھا جیسے مشہور کہانی کے اونٹ کو بدّو نے اپنے خیمے میں سر داخل کرنے کی اجازت دے دی تھی!
سر ٹامس رو کو جہانگیر کے ساتھ دوسرے پلڑے میں تلنے والی دولت پر یقین کرنے میں حیرت ہوئی تھی، لیکن ان کے طے کردہ معاہدے کے نتیجے میں برطانیہ اگلے ساڑھے تین سو برسوں میں ہندوستان سے جو دولت سمیٹ کر لے گیا، اس کے بارے میں ماہرینِ معاشیات نے کچھ تخمینے لگانے کی کوشش ضرور کی ہے۔
اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج کے ہندوستان پر اقتدار کے دوسرے اثرات کیا مرتب ہوئے جو محض دولت لٹنے سے کہیں زیادہ بھیانک تھے۔

تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی

امریکی تاریخ دان میتھیو وائٹ نے 'دا گریٹ بُک آف ہاریبل تھنگز' کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے تاریخ کی ایک سو بدترین سفاکیوں کا جائزہ پیش کیا ہے جن کے دوران سب سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کتاب میں تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی برطانوی دور میں ہندوستان میں آنے والے قحط ہیں جن میں وائٹ کے مطابق دو کروڑ 66 لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔
بنگال قحطتصویر کے کاپی رائٹ Getty Images Image caption تاریخ دانوں کے مطابق ہندوستان میں انگریزوں کے دور میں آنے والے پے در پے قحطوں کی وجہ حکومتی پالیسیاں تھیں
اس تعداد میں وائٹ نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران بنگال میں آنے والے قحط کو شمار نہیں کیا جس میں 30 سے 50 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔
اگر اس قحط کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں برطانیہ کی براہِ راست حکومت کے دوران تین کروڑ کے قریب ہندوستانی قحط کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے زرخیز خطوں میں ہوتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے، پھر اتنے لوگ کیوں بھوکوں مر گئے؟
وائٹ نے ان قحطوں کی وجہ 'تجارتی استحصال' (commercial exploitation) قرار دی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے لیے ہم صرف ایک قحط کا ذکر کرتے ہیں جو 1769 میں بنگال ہی میں آیا تھا۔
نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات امرتیہ سین نے اس قحط میں ہونے والی اموات کی تعداد ایک کروڑ بتائی ہے۔ اس دور کا ایک منظر ایک انگریز ہی کی زبانی دیکھیے:
'دسیوں لاکھ لوگ چند بقیہ ہفتوں تک زندہ رہنے کی آس لیے مر گئے جو انھیں فصل تیار ہونے تک گزارنے تھے۔ ان کی آنکھیں ان فصلوں کو تکتی رہ گئیں جنھیں اس وقت پکنا تھا جب انھیں بہت دیر ہو جاتی۔'

شاندار فصل کے اندر ڈھانچے

فصلیں تو اپنے وقت پر تیار ہوئیں لیکن اس وقت تک واقعی بہت دیر ہو چکی تھی۔ 1769 کی یہی کہانی پونے دو سو سال بعد ایک بار پھر مشرقی بنگال میں دہرائی گئی۔ ٹائمز آف انڈیا اخبار کا 16 نومبر 1943 کا تراشہ:
'مشرقی بنگال میں ایک ہولناک مگر عام منظر یہ تھا کہ نصف صدی کی سب سے شاندار فصل کے دوران پڑا ہوا گلا سڑا کوئی انسانی ڈھانچہ نظر آ جاتا تھا۔'
ساحر لدھیانوی نے اس قحط پر نظم لکھی تھی، جس کے دو شعر:
پچاس لاکھ فسُردہ، گلے سڑے ڈھانچے / نظامِ زر کے خِلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے، دَم توڑتی نگاہوں سے / بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
قحط تو قدرتی آفات کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کیا قصور؟ مشہور فلسفی ول ڈیورانٹ اس بارے میں لکھتے ہیں:
'ہندوستان میں آنے والے خوفناک قحطوں کی بنیادی وجہ اس قدر بےرحمانہ استحصال، اجناس کی غیرمتوازن درآمد اور عین قحط کے دوران ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہوتے کسان انھیں ادا نہیں کر سکتے تھے۔۔۔ حکومت مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلی رہتی تھی۔'
ایک چھوٹی سی کمپنی اتنی طاقتور کیسے ہو گئی کہ ہزاروں میل دور کسی ملک میں کروڑوں لوگ کی زندگیوں اور موت پر قادر ہو جائے؟
اس کے لیے ہمیں تاریخ کے چند مزید صفحے پلٹا ہوں گے۔
1498 میں پرتگیزی مہم جو واسکو ڈے گاما نے افریقہ کے جنوبی کونے سے راستہ ڈھونڈ کر ہندوستان کو سمندری راستے کے ذریعے یورپ سے منسلک کر دیا تھا۔ آنے والے عشروں کے دوران دھونس، دھمکی اور دنگا فساد کے حربے استعمال کر کے پرتگیزی بحرِ ہند کی تمام تر تجارت پر قابض ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پرتگال کی قسمت کا سورج نصف آسمان پر جگمگانے لگا۔
واسکو ڈے گاماتصویر کے کاپی رائٹ Getty Images Image caption پرتگیزی مہم جو کالی کٹ کے راجہ کے دربار میں۔ اس نے ہندوستان کا سمندری راستہ دریافت کر کے یورپ اور ایشیا کو منسلک کر دیا
ان کی دیکھا دیکھی ولندیزی بھی اپنے توپ بردار بحری جہاز لے کے بحرِ ہند میں آ دھمکے اور دونوں ملکوں کے درمیان جوتم پیزار ہونے لگی۔
اسی بارے میں مزید پڑھیے
جب پرتگالیوں نے ہندوستان کی تاریخ پلٹ کر رکھ دی
انگلستان یہ سارا کھیل بڑے غور سے دیکھ رہا تھا، بھلا وہ اس دوڑ میں کیوں پیچھے رہ جاتا؟ چنانچہ ملکہ الزبیتھ نے ان دو ملکوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دسمبر 1600 میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کروا کر اسے ایشیا کے ملکوں کے ساتھ بلاشرکتِ غیرے تجارت کا اجازت نامہ جاری کر دیا۔
لیکن انگریزوں نے ایک کام کیا جو ان سے پہلے آنے والے دو یورپی ملکوں سے نہیں ہو سکتا تھا۔ انھوں نے صرف جنگ آمیز تجارت پر ساری توانائیاں صرف نہیں کیں بلکہ سفارت کاری پر بھی بھرپور توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ٹامس رو جیسے منجھے ہوئے سفارت کار کو ہندوستان بھیجا تاکہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے بند دروازے کھول دے۔
مغلوں کی طرف سے پروانہ ملنے کے بعد انگریزوں نے ہندوستان کے مختلف ساحلی شہروں میں ایک کے بعد ایک تجارتی اڈے قائم کرنا شروع کر دیے جنھیں فیکٹریاں کہا جاتا تھا۔ ان فیکٹریوں سے انھوں نے مصالحہ جات، ریشم اور دوسری مصنوعات کی تجارت شروع کر دی جس میں انھیں زبردست فائدہ تو ہوتا رہا، لیکن جلد ہی معاملہ محض تجارت سے آگے بڑھ گیا۔

جوڑ توڑ

چونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی دوسرے یورپی ملکوں سے اکثر جنگیں چلتی رہتی تھیں اور یہ ایک دوسرے کا مال لوٹنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے، اس لیے انگریزوں نے اپنی فیکٹریوں میں بڑی تعداد میں مقامی سپاہی بھرتی کرنے شروع کر دیے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ یہ فیکٹریاں پھیل کر قلعوں اور چھاؤنیوں کی شکل اختیار کرنے لگیں۔
جب کمپنی کی فوجی اور مالی حالت مضبوط ہوئی تو اس کے اہلکار مقامی ریاستوں کے آپسی لڑائی جھگڑوں میں ملوث ہونے لگے۔ کسی راجے کو سپاہیوں کے دستے بھجوا دیے، کسی نواب کو اپنے حریف کو زیر کرنے کے لیے توپیں دے دیں، تو کسی کو سخت ضرورت کے وقت پیسہ ادھار دے دیا۔ اس جوڑ توڑ کے ذریعے انھوں نے رفتہ رفتہ اپنے پنجے ساحلی علاقوں سے دور تک پھیلا دیے۔
مسلسل پھیلاؤ کے اس سفر میں سب سے اہم موڑ 1757 میں لڑی جانے والی جنگِ پلاسی ہے، جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک کلرک رابرٹ کلائیو کے تین ہزار سپاہیوں نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کی 50 ہزار فوج کو شکست دے دی۔
کیسے شکست دی، یہ کہانی مطالعۂ پاکستان کی کتاب میں درج ہے، بس اس کہانی کا اخلاقی نتیجہ یاد رکھیے کہ جنگ کے بعد کلائیو نے سراج الدولہ کا صدیوں کا جمع کردہ خزانہ سمندری جہازوں میں لدوا کر بالکل اسی طرح لندن پہنچا دیا جس طرح 18 سال قبل نادر شاہ دہلی کی دولت دونوں ہاتھوں سے نچوڑ کر ایران لے گیا تھا۔
رابرٹ کلائیو اور میر جعفرتصویر کے کاپی رائٹ Francis Hayman/National Portrait Gallery, London Image caption جنگِ پلاسی کے دوران رابرٹ کلائیو میر جعفر سے معاملات طے کرتے ہوئے
لیکن کلائیو نے تمام دولت شاہی خزانے میں جمع نہیں کروائی بلکہ اپنے لیے بھی کچھ حصہ رکھ لیا، جس کی مالیت آج کل کے حساب سے تین کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ اس رقم سے اس نے برطانیہ میں ایک شاندار محل بنوایا اور وسیع جاگیر خریدی جس کا نام 'پلاسی' رکھا۔ یہی نہیں، اس نے پیسہ دے کر نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے باپ کے لیے بھی پارلیمان کی نشست خرید لی۔ بعد میں اسے سر کا خطاب بھی عطا کر دیا گیا۔

'ہاتھ اتنا ہولا کیوں رکھا!'

لیکن اسی دوران بنگال میں آنے والے خوفناک قحط اور اس کے نتیجے میں صوبے کی ایک تہائی آبادی کے فنا ہو جانے کی خبریں انگلستان پہنچنا شروع ہو گئی تھیں جن کا سبب لارڈ کلائیو کی پالیسیوں کو قرار دیا گیا۔
بنگال قحطتصویر کے کاپی رائٹ AFP
لاٹ صاحب پر انگلیاں اٹھنے لگیں، چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ کرتے کرتے نوبت پارلیمان میں قرارداد پیش ہونے تک جا پہنچی۔ یہ قرارداد تو خیر منظور نہیں ہو سکی، کیوں کہ اس زمانے میں پارلیمان کے ایک چوتھائی کے لگ بھگ ارکان کے خود ایسٹ انڈیا کمپنی میں حصص تھے۔
بحث کے دوران کلائیو نے کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے اپنی وسیع و عریض دولت کے بارے میں کہا کہ 'میں تو خود سخت حیران ہوں کہ میں نے ہاتھ اس قدر 'ہولا' کیوں رکھا!' ورنہ وہ چاہتے تو اس سے کہیں زیادہ مال و زر سمیٹ کر لا سکتے تھے۔
تاہم ہندوستان میں برپا ہونے والی قیامت کے اثرات کسی نہ کسی حد تک کلائیو کے دل و دماغ پر اثرانداز ہونے لگے اور اس نے بڑی مقدار میں افیم کھانا شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ 1774 میں اپنے کمرے میں پراسرار حالت میں مردہ پائے گئے۔
یہ معما تو آج تک حل نہیں ہو سکا کہ آیا کلائیو نے خودکشی کی تھی یا افیم کی زیادہ خوراک جان لیوا ثابت ہوئی۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان کی ہندوستان میں حکمتِ عملی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی جس راستے پر چل نکلی وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے ضرور جان لیوا ثابت ہوئی۔
اس دوران مغل کچھ اپنی نااہلی اور کچھ بیرونی حملوں اور مرہٹوں کی چیرہ دستیوں کے باعث اس قدر کمزور ہو چکے تھے کہ وہ دور ہی دور سے انگریزوں کے رسوخ کو دن دگنا، رات چوگنا بڑھتے دیکھنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے۔ چنانچہ جنگِ پلاسی کے صرف نصف صدی بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی سپاہ کی تعداد ڈھائی لاکھ سے تجاوز کر گئی اور انھوں نے بنگال سے نکل کر ہندوستان کے بڑے حصے پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔

مغل شہنشاہ کمپنی کا وظیفہ خوار

نوبت یہاں تک پہنچی کہ 1803 کے آتے آتے دہلی کے تخت پر بیٹھا مغل شہنشاہ شاہ عالم ایسٹ انڈیا کمپنی کا وظیفہ خوار بن کر رہ گیا۔ ایک زمانہ تھا کہ اسی شاہ عالم کے پرکھ جہانگیر کے آگے انگریز سفیر ٹامس رو گھنٹوں کے بل جھکتا تھا، اب یہ حالت تھی کہ اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک کلرک کو جھک کر پورے بنگال کا اختیارنامہ پیش کرنا پڑا۔
شاہ عالم ثانی اور لارڈ کلائیوتصویر کے کاپی رائٹ Benjamin West/British Library Image caption مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکار لارڈ کلائیو کو بنگال کے جملہ حقوق کی دیوانی پیش کرتے ہوئے
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ یہ سارا کام برطانوی حکومت نے نہیں، بلکہ ایک کمپنی نے کیا جس کا صرف ایک اصول تھا، ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کر کے اپنے حصہ داروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا۔ یہ کمپنی لندن کے ایک علاقے میں ایک چھوٹی سی عمارت سے کام کرتی تھی اور قیام کے ایک صدی بعد تک بھی اس کے مستقل ملازمین کی تعداد صرف 35 تھی۔
لیکن اس کے باوجود دنیا کی تاریخ میں کوئی کمپنی ایسی نہیں گزری جس کے پاس اس قدر طاقت ہو۔
اگر آپ کو شکایت ہے کہ آج کی ملٹی نیشنل کمپنیاں بہت طاقتور ہو گئی ہیں اور وہ ملکوں کی پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہی ہیں، تو اب ذرا تصور کیجیے کہ گوگل، فیس بک، ایپل، مائیکروسافٹ اور سام سنگ مل کر ایک کمپنی بن جائیں جس کے پاس اپنی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوج ہو اور جو ملک ان کی مصنوعات خریدنے سے انکار کرے، یہ کمپنی اس پر چڑھ دوڑے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا گودامتصویر کے کاپی رائٹ Contraband Collection/Alamy Image caption ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا افیم کا گودام

افیم کیوں نہیں خریدتے؟

ایسٹ انڈیا کمپنی نے بالکل یہی کام چین کے ساتھ کیا۔ اوپر ہم نے لارڈ کلائیو کی افیم کے ہاتھوں موت کا ذکر کیا تھا۔ یہ افیم ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں اگاتی تھی لیکن ساری کی ساری اس کے عہدے دار نہیں کھا جاتے تھے بلکہ اس کا بڑا حصہ چین لے جا کر مہنگے داموں بیچا جاتا تھا۔ جب چینیوں کو احساس ہوا کہ یہ تو ہمارے ساتھ گھپلا ہو رہا ہے، تو انھوں نے مزید افیم خریدنے سے معذرت کر لی۔
کمپنی اپنے منافعے میں کمی کیسے برداشت کرتی۔ اس نے 1839 میں چند توپ بردار جہاز چین بھیج کر چین کا دقیانوسی بحری بیڑا تہس نہس کر دیا۔ چینی شہنشاہ نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف افیم کی درآمد پر پابندی اٹھا دی بلکہ بطور جرمانہ ہانگ کانگ بھی برطانیہ کو ہبہ کر کے دے دیا جو 1997 میں کہیں جا کر واپس چین کو ملا۔
جنگِ افیمتصویر کے کاپی رائٹ Edward Duncan Image caption جب چینیوں نے افیم خریدنے سے انکار کیا تو برطانوی جہاز 'نیمیسس' نے کینٹن کی بندرگاہ پر تباہی مچا دی
اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنی پیش قدمی جاری رکھی اور ایک کے بعد ایک ریاست، ایک ایک بعد ایک راجواڑہ ان کی جھولی میں گرتا رہا۔ 1818 انھوں نے مرہٹوں کو سلطنت ہتھیائی، اس کے بعد اگلے چند عشروں میں سکھوں کو شکست دے کر تمام مغربی ہندوستان یعنی آج کے پاکستان پر بھی قابض ہو گئی۔ اب درۂ خیبر سے لے کر برما اور ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں سے لے کر راس کماری تک ان کا راج تھا۔
اب اونٹ نے خیمے میں گھس کو بدو کو مکمل طور پر بےدخل کر دیا تھا۔

تاجِ برطانیہ کا سب سے درخشاں ہیرا

معاملات یوں ہی چلتے رہے، لیکن پھر بدقسمتی نے گھیرے ڈال دیے۔ 1857 میں کمپنی کے اپنے ہی تنخواہ دار سپاہیوں نے بغاوت کر دی جس کے دوران بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوا۔ اس زمانے میں اخبار عام ہو گئے تھے۔ اس ساری گڑبڑ کی خبریں انگلستان تک پہنچیں۔
ہوتے ہوتے کمپنی کا تاثر برطانیہ میں اتنا خراب ہو گیا کہ بالآخر پارلیمان کو عوامی دباؤ کے زیرِ اثر کمپنی کو قومیانے کا فیصلہ کرنا پڑا اور ہندوستان براہِ راست برطانوی حکومت کی عملداری میں آ کر ملکہ وکٹوریہ کے 'تاج کا سب سے درخشاں ہیرا' بن گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی پھر بھی چند سال گھسٹ گھسٹ کر زندگی گزارتی رہی، لیکن کب تک۔ آخر یکم جون 1874 کو پونے تین سو سال کی طویل شان و شوکت کے بعد یہ کمپنی تحلیل ہو گئی۔
ایسٹ انڈیا کمپنیتصویر کے کاپی رائٹ Heritage Image Partnership Ltd/Alamy Image caption لندن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہیڈکوارٹر، جسے گرا کر اس کی جگہ ایک بینک کی عمارت کھڑی کر دی گئی ہے
کمپنی کی وفاتِ حسرت آیات پر اس زمانے میں ٹائمز اخبار نے جو نوٹ لکھا تھا وہ کمپنی کی تاریخ کی عمدہ ترجمانی کرتا ہے:
'اس (کمپنی) نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے وہ بنی نوعِ انسان کی تاریخ میں کسی اور تجارتی کمپنی کے حصے میں نہیں آ سکے۔ نہ ہی آئندہ آنے والے برسوں میں امکان ہے کہ کوئی اور کمپنی اس کی کوشش بھی کر پائے گی۔'

نہ کوئی جنازہ نہ کوئی مزار

ٹائمز کا قصیدہ اپنی جگہ، لیکن لگتا یہی ہے کہ شاید انگریزوں کو اپنی اس کمپنی کے 'کارہائے نمایاں' پر کچھ زیادہ فخر نہیں ہے۔ کیوں کہ آج لندن میں لیڈن ہال سٹریٹ پر جس جگہ کمپنی کا ہیڈکوارٹر تھا، وہاں ایک بینک کی چمچماتی عمارت کھڑی ہے، اور کہیں کوئی یادگار، کوئی مجسمہ، حتیٰ کہ کوئی تختی تک نصب نہیں ہے۔ نہ کوئی جنازہ اٹھا، نہ کہیں مزار بنا۔
کمپنی کی کوئی جسمانی یادگار ہو نہ ہو، اس نے جو کام کیے ان کے اثرات آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
شاید یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو کہ اس کمپنی کے غلبے سے پہلے اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا اور دنیا کی کل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ پیدا کرتا تھا۔ جب کہ اسی دوران انگلستان کا حصہ صرف دو فیصد تھا۔
ہندوستان کی زمین زرخیز اور ہر طرح کے وسائل سے مالامال تھی، اور لوگ محنتی اور ہنرمند تھے۔ یہاں پیدا ہونے والے سوتی کپڑے اور ململ کی مانگ دنیا بھر میں تھی، جب کہ جہاز رانی اور سٹیل کی صنعت میں بھی ہندوستان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
گرافImage caption دنیا کی مختلف معیشتوں کا جائزہ
یہ ساری صورتِ حال جنگِ پلاسی کے بعد بدل گئی اور جب 1947 میں انگریز یہاں سے گئے تو سکندر کے برعکس ان کی جھولی بھری ہوئی اور ہندوستان کے ہاتھ خالی تھے۔

'دنیا کا غریب ترین ملک'

انڈیا کے سابق وزیرِ اعظم اور ماہرِ اقتصادیات من موہن سنگھ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
'اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطنتِ برطانیہ کے خلاف ہماری شکایات کی ٹھوس بنیاد موجود ہے۔۔۔ 1700 میں انڈیا تنِ تنہا دنیا کی 22.6 فی صد دولت پیدا کرتا تھا، جو تمام یورپ کے مجموعی حصے کے تقریباً برابر تھی۔ لیکن یہی حصہ 1952 میں گر کر صرف 3.8 فیصد رہ گیا۔ 20ویں صدی کے آغاز پر 'تاجِ برطانیہ کا سب سے درخشاں ہیرا' درحقیقت فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا کا غریب ترین ملک بن گیا تھا۔'
اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ انگریزوں کے دو سو سالہ استحصال نے ہندوستان کو کتنا نقصان پہنچایا۔
اس سلسلے میں مختلف لوگوں نے مختلف اندازے لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے زیادہ قرینِ قیاس ماہرِ معاشیات اور صحافی منہاز مرچنٹ کی تحقیق ہے۔ ان کے مطابق 1757 سے لے کر 1947 تک انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والے مالی دھچکے کی کل رقم 2015 کے زرمبادلہ کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتی ہے۔
ذرا ایک منٹ رک کر اس رقم کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے مقابلے پر نادر شاہ بےچارے کو دہلی سے صرف 143 ارب ڈالر لوٹنے ہی پر اکتفا کرنا پڑی تھی۔
چار سو سال پہلے جہانگیر کے دربار میں انگریز سفیر کو شک گزرا تھا کہ آیا واقعی ہندوستان اتنا امیر ہے کہ اس کے شہنشاہ کو سونے چاندی اور ہیرے جواہرات میں تولا جا سکتا ہے، اور کہیں دوسرے پلڑے میں درباریوں نے ریشم کی تھیلیوں میں پتھر تو نہیں ڈال دیے؟
اگر کسی طرح سر ٹامس رو کو واپس لا کر انھیں یہ اعداد و شمار دکھا دیے جائیں تو شاید ان کی بدگمانی ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے۔

Sunday 12 August 2018

Asif Zardari, South Punjab


فیلڈ مارشل ایوب خان کے کارنامے


اگست 1965 میں انہی کے دور میں آپریشن جبرالٹر شروع کیا گیا ہے جس کا نتیجہ 1965 کی جنگ میں صورت میں نکلا 

انہی صاحب نے سندھ طاس معاہدہ کیا تھا جس میں مغربی دریاوں کا پانی پندوستان کو دے دیا گیا تھا ۔ جس کو آج تک قوم بھگت رہی ہے 

انہی صاحب نے تاشقند معاہدہ کیا تھا ہندوستان سے جس کے بعد قوم نے اس کے خلاف تحریک چلائی تھی 

انہیں صاحب کے دور میں بنگالیوں میں احساس محرومی اس درجہ پہنچ چکا تھا کہ ان کے بعد ہونے والے الیکشن میں مغربی پاکستان کی کسی پارٹی کو مشرقی پاکستان میں ایک سیٹ نا ملی اور نا مشرقی پاکستان کی پاڑٹی کو مغربی پاکستان میں سے ایک سیٹ ملی 

باقی ون یونٹ ، جعلی بی ڈی سسٹم کے تحٹ الیکشن اور جعلی آئین سازی سے لیکر تحریک پاکستان کی بچ جانے والی سیاسی قیادت کے خاتمے کا سہرہ بھی انہیں صاحب کے نام ہے 

روس کے خلاف امریکیوں کے اتحاد میں بھی ہمیں پہلی بار یہی کے گئے تھے 

کراچی میں پہلی بار ethnic clashes بھی انہی کے دور میں شروع ہوئے تھے