Wednesday 27 December 2017

Benazir's Killers


بینظیر کی مصلحت پسندی اور پاکستانی سیاست

                           

بینظیر کی مصلحت پسندی اور پاکستانی سیاست

بے نظیر بھٹوتصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
Image caption بینظیر بھٹو نے پاکستانی سیاست میں جمہوریت کے لیے جو جدوجہد کی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے

بینظیر بھٹو اگر کچھ عرصہ اور زندہ رہتی تو کیا ہوتا! اس بارے میں کافی قیاس آرائیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن وہ ماضی میں کیا تھیں بہت کچھ یقین سے کہا جا سکتا ہے۔ ان پر کرپشن کے الزامات لگے، ان پر خراب حکمرانی کی آوازیں بھی کسی گئیں، مگر ان کے نڈر ہونے پر کسی نے شک نہیں کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنے باپ کو جرات کے ساتھ پھانسی کے لیے تیار دیکھا تھا۔

27 دسمبر 2007 کی شام تک تمام خطرات کے باوجود ان کا عوام سے رابطہ منقطع نہیں ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب صرف دو ماہ قبل کراچی میں ان کے عظیم الشان استقبالیہ جلوس پر دو خود کش حملے ہوئے تھے جن میں ان کی جماعت کے 180 کارکنان ہلاک ہوگئے تھے۔ پر تشدد موت کا شکار ہونے والی بینظیر خود ہمیشہ تشدد کی مخالف رھیں۔ وہ ایک جمہوری تحریک چلانے والی مصالحت پسند سیاسی رہنما تھیں۔

سٹینلے وولپارٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ جب 1979 میں ان کو پھانسی دی جانے والی تھی تو بینظیر نے انتقام لینے کا ارادہ کرنے کی بـجائے پاکستان میں 'جمہوریت کی تحریک چلانے کا ارادہ کیا تھا'۔ بقول بینظیر بھٹو، پھانسی سے ایک شب قبل جب بینظیر بھٹو اپنی ماں کے ہمراہ اپنے باپ سے آخری ملاقات کرنے گئیں تو انھیں ملاقات کے لیے 30 منٹ دیے گئے تھے۔

'میں نے وہ قیمتی وقت ایک سکتے میں گزارا، میں ایک خواب میں تھی اس حقیقت سے بے خبر کہ یہ بیٹی کی باپ سے آخری ملاقات ہے، اس باپ سے جسے میں نے دنیا میں کسی بھی شخص سے زیادہ محبت کی!'

یہ بھی پڑھیے

دس سالہ معمہ: بینظیر بھٹو کا قاتل کون؟

ایف آئی اے نے بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ چیلنج کر دیا

اب زرداری کا بچنا محال ہے؟

تاہم جب بینظیر 1977 کی فوجی بغاوت کے بعد رہا ہوئی تھیں تو وہ لاہور آئیں جہاں پرانی انارکلی کی ربانی روڈ پر پیپلز پارٹی کی ایک عام رکن بیگم شفیع پیرزادہ کی رہائش پر پیپلز پارٹی کی حامی خواتین سے ان کے گھر میں انھوں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات میں حصہ لے گی اور ہر جمہوری جدوجہد کا حصہ بنے گی (میری والدہ بیگم تاج آرا واسطی اس موقع پر پیپلز پارٹی کی لیڈر بیگم آباد کے ہمراہ اُن کی دعوت پر موجود تھیں۔)

جس وقت بینظیر بھٹو بیگم شفیع پیرزادہ کے گھر میں تقریر کررہی تھیں اس وقت باہر قومی اتحاد کے چند کارکنان پولیس کی معیت میں بینظیر کے خلاف گالیوں بھرے نعرے لگا رہے تھے۔ بینظیر کی ساری عمر ایسے ہی معاندانہ ماحول میں مصالحتی جدوجہد کرتے گزری ہے۔

بے نظیر بھٹوتصویر کے کاپی رائٹ AFP
Image caption بینظیر کی سیاسی تربیت بہت کمی عمری ہی میں شروع ہو گئی تھی

مصالحت کی حکمت عملی

جب بینظیر بھٹو 2007 میں مصالحت کرکے وطن لوٹیں تو ایسے حالات میں ہر شخص ان کو محفوظ رہنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ ان کی واپسی جس مصالحتی معاہدے کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی اس معاہدے سے جن سیاسی سرگرمیوں کے لیے مواقع ملے اس سے فائدہ تو کئی سیاسی رہنماؤں نے اٹھایا مگر اس معاہدے کی بدنامی صرف بینظیر کے حصے میں آئی تھی۔

معاہدے کی بدنامی سے لے کر اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا بینظیر بھٹو کی سیاست کا خاصّہ رہا ہے۔ یہ ان کے نظریات کی اساس تھی۔ وہ کوئی بھی بڑا اور نڈر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں بشرطیکہ انھیں یقین ہو کہ اس سے قومی سیاسی سفر آگے بڑھے گا۔

تحریک بحالئ جمہوریت یعنی ایم آرڈی ہو یا وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے وطن واپسی کے لیے بات چیت، اپنے باپ کے قاتل جنرل ضیا سے شراکت اقتدار پر راضی ہونا یا جنرل بیگ کو تمغہ جمہوریت دینا، یا قومی مصالحتی آرڈیننس جیسے معاہدے پر راضی ہونا۔ بینظیر بھٹو کبھی دائیں بازو کے مخالفین کی تنقید کا نشانہ بنیں، کبھی بائیں بازو کے حامیوں کی تنقید کا نشانہ بنیں اور کبھی لبرلز کا۔

مگر انھوں نے جمہوریت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے مصالحت سے لے کر براہ راست تصادم تک، ہر طریقے کو حالات کی ضروریات کے مطابق استعمال کیا۔

اپنی آخری کتاب 'مصلحت: اسلام، جمہوریت اور مغرب (Reconciliation: Islam, Democracy and the West) میں جو باہمی بقا کی بات مغرب اور مشرق یا مغرب اور عالم اسلام کے حوالے سے اسی باہمی بقا کے فلسفے کو وہ پاکستان کی اندرونی سیاست میں بھی عملی طور پر اپنائے ہوئے تھیں۔ ان کی اپنی زندگی پر پہلی خود نوشت دخترِ مشرق (Daughter of the East) میں بھٹو نے 1989 ہی میں ایک 'آزاد، تکثیریت اور رواداری والے اسلام' کی بات کی۔

یہی بات انھوں نے ایک دوسرے انداز میں اپنی 1983 میں لکھی گئی کتاب Pakistan: The Gathering of Storm میں کہی جس میں وہ ایم آر ڈی میں ان جماعتوں کے ساتھ بھی جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی جدوجہد کی وجہ بیان کرتی ہیں جو ان کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قتل میں بالواسطہ شریک تھیں۔ دراصل ان کی سیاسی جدوجہد کا فلسفہ عدم تشدد ہی تھا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی مبینہ مسلح سیاسی تحریک سے الگ رہیں۔

بینظیر بھٹو نے 1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک کے بارے میں اپنی کتاب 'دی گیدرنگ آف سٹارم' میں لکھا تھا: 'یہ ظلم کی ایک طویل شب ہے ۔۔۔ جو اب چھٹے برس میں داخل ہوچکی ہے ۔۔۔ یہ ایک غیر معینہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکتی ہے۔ عوام کو ہمیشہ کے لیے فوجی بوٹوں تلے کچلا نہیں جاسکتا۔ ایک دن علم بغاوت بلند ہوگا ۔۔۔ اور کچھ زیادہ دنوں میں نہیں۔ پاکستان کے حریت پسند عوام یہ ثابت کرچکے ہیں 1968 میں اور 1971 میں جب ظالم ناقابل تسخیر نظر آتا تھا۔ جب بھی عوام نے ظالمانہ طاقت کو گلیوں سڑکوں پر چیلینج کیا جیسا کہ ایران کے عوام نے 1978 میں کیا، (تو) یہ ظلم ہوا میں خاک کی طری تحلیل ہوگیا۔ آزادی کی قیمت چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو پاکستان کے عوام اپنے خون سے ادا کریں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو، ہم ہوں گے کامیاب!'

نینظیر
Image caption لندن میں اپنے آخری پریس کانفرنس انھوں نے ایک بار پھر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کا عزم دھرایا

ہائی جیکنگ

گیارہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل تحریک بحالئ جمہوریت 1981 میں بنی تھی۔ اس میں بائیں بازو، دائیں بازو اور لبرل جماعتیں بھی شامل تھیں۔ جنرل ضیا اس تحریک سے گھبرایا ہوا تھا، کیونکہ 1979 میں پاکستان کے طول و عرض میں 'عوام دوست' کے نام سے انتخابات لڑنے والے امیدواروں کی بھاری تعداد ضیا کے پہلے مقامی حکومتوں کے انتحابات میں کامیاب ہوئی تھی۔ جنرل ضیا شدید سیاسی دباؤ میں تھے۔

لیکن ابھی ایم آر ڈی ضیا مخالف سیاسی تحریک کا آغاز ہی کررہی تھی کہ پی آئی اے کا ہوائی جہاز ہائی جیک ہوگیا۔ ایک امریکی محقق کرسٹوف جیفرلوٹ اپنی کتاب The Pakistan Paradox: Instability and Resilience میں لکھتے ہیں کہ دو مارچ 1981 کو ہوائی جہاز کے اغوا نے بظاہر جنرل ضیا کی حکومت کو زچ کردیا مگر اس واقعے نے انھیں ایک موقع دے دیا جس کو بہانہ بنا کر اس نے انتہائی سفاکی سے پیپلز پارٹی کو کچل دیا۔ ہوائی جہاز کو ہائی جیک کراچی کے ایک نوجوان سلام اللہ ٹیپو نے کیا تھا۔ ہائی جیکنگ کی ذمہ داری میر مرتضیٰ بھٹو سے منسوب کی گئی۔ مگر سٹیون زونز نے لکھا ہے کہ مرتضیٰ بھٹو نے اس کی تردید کی تھی۔

اس دور کے جمیعت علمائے اسلام کے پنجاب کے سیکریٹری اطلاعات عبدالرحیم زاہد کے مطابق، اس وقت بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ ہوائی جہاز کو ایجنسیوں نے ہائی جیک کروایا تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی ہی ایم آر ڈی کی سب سے بڑی جماعت تھی جب اسے ریاستی بربریت کے ذریعے کچلا گیا تو ایم آر ڈی کی تمام سرگرمیاں عملاً ختم ہوگئیں۔

بے نظیر بھٹوتصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
Image caption بینظیر بھٹو بڑے قوی اعصاب کی مالک تھیں اور اس کی بدولت اتنی مشکل زندگی گزارنے کے بعد بھی وہ تلخ نہیں ہوئی تھیں

بینظیر بھٹو کی پہلی سوانح عمری 'ڈاٹر آف دی ایسٹ' کے مطابق، اس ہائی جیکنگ کے بعد بینظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس وقت سلامتی کی ایجینسیوں کے کچھ افسران نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ہائی جیکنگ کی منصوبہ بندی کے کاغذات بینظیر کے بیڈروم سے ملے تھے۔ سکھر جیل میں بینظیر پر جس طرح کا تشدد ہوا وہ کسی بھی مضبوط اعصاب والے شخص کی قوت ارادی کو توڑ سکتا تھا۔

بے نظیر بھٹوتصویر کے کاپی رائٹ AFP
Image caption اپنے بچوں کی تربیت پر بھی وہ بھرپور توجہ دیتی رہیں

تحریک بحالئ جمہوریت

پھر 1983 میں ایم آر ڈی نے جلسوں اور جلوسوں کی ایک ملک گیر تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی روح رواں پیپلز پارٹی ہی تھی۔ تاہم دوسری سطح پر بڑا کردار جمیعت علمائے اسلام اور سندھ کی علاقائی جماعتوں کا تھا۔ عبدالرحیم زاہد کا کہنا ہے کہ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے قبل پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو دسیوں ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کیا گیا تھا اسی طرح ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد پورے ملک میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو دہشت گرد قرار دے کر گرفتاریوں سے لے کر، کوڑوں، شاہی قلعے کے عقوبت خانوں اور پھانسی جیسی سزائیں دی گئیں۔

پیپلز پارٹی کی لاہور کی رہنما شاہدہ جبیں کے بھائی کو بھی اسی دوران پھانسی دی گئی۔ عبدالرحیم زاہد کے مطابق پورے ملک کی طرح پنجاب کے تمام عہدیداروں اور کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ مرد تو مرد، عورتیں بھی تشدد کا نشانہ بنیں جن میں پنجاب کے سابق صدر رانا شوکت محمود کی اہلیہ سمیت کئی خواتین کو شاہی قلعے میں انتہائی شرمناک انداز میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

عبدالرحیم زاہد کا کہنا ہے کہ بیگم رانا شوکت محمود کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اس کا ذکر ایم آر ڈی کی ایک میٹنگ میں کرتے ہوئے رانا شوکت پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے۔

سیاسی کارکنوں اور طلبہ رہنماؤں پر شاہی قلعہ لاہور میں تشدد کیا گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم رہنما آغا نوید جسمانی طور پر اپاہج ہو گئے (جس کی وجہ سے 2009 میں ان کی موت ہوئی) اور پنجاب کے سابق سپیکر شیخ رفیق کے بیٹے، شیخ عتیق ذہنی طور پر اپاہج ہوگئے اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہوا۔ اس کے علاوہ ہزاروں کارکنان تشدد کا نشانہ بنے، ہزاروں کارکنوں کو فوجی عدالتوں سے کوڑوں اور طویل المدت قید کی سزائیں دی گئیں (بینظیر بھٹو نے وزیراعظم بننے کے بعد ان کی سزائیں ختم کیں)۔

بے نظیر بھٹوتصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
Image caption بینظیر مسلم دنیا میں منتخب ہونے والی پہلی وزیر اعظم تھیں

سندھ پر مظالم

عبدالرحیم زاہد کے مطابق پرانے سیاسی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایم آر ڈی کی تحریک برصغیر کی بڑی تحریکوں میں سے ایک تھی۔ ایک امریکی محقق سٹیون زونز نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پاکستان میں جمہوری تحریک کے حق میں بیان دیا جو پاکستان کی فوجی حکومت اور دائیں بازو کے صحافیوں کے لیے ایم آر ڈی اور پیپلز پارٹی کو انڈین ایجنٹ قرار دینے کے لیے کافی تھا (آج تک پاکستان میں دائیں بازو کی اسٹیبلشمینٹ کی قوتیں کسی بھی حقوق یا جمہوری تحریک کو انڈیا کی حمایت یافتہ تحریک کہہ کر کچلنے کی کوشش کرتی ہیں۔)

چونکہ پیپلز پارٹی کو بہت بری طرح کچلا جاچکا تھا، پھر پنجاب میں پیپلز پارٹی کو مبینہ تخریب کاری کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرا کر ایک علحیدگی پسند جماعت کا تاثر بنا دیا گیا تھا، اس لیے ایم آر ڈی کی 1983 کی تحریک عملاً اندرون سندھ تک محدود ہو گئی تھی۔ سندھ میں جنرل ضیا کے مارشل لا کی بربریت کا ایک نیا باب کھلا۔

بینظیر بھٹو نے جمہوری اور سیاسی عمل کو اتنا آگے بڑھایا کہ جنرل ضیا کا اپنے ہاتھ کا بنایا ہوا وزیر اعظم، جونیجو، بھی اپنے آپ کو عوامی قائد بنانے کے لیے کئی مرتبہ جنرل ضیا کے سامنے اپنے حقوق مانگنے کے لیے کھڑا ہوا اور جب جونیجو نے افغانستان کی جنگ ختم کرنے کے لیے جینیوا معاہدہ کیا تو بینظیر بھٹو نے ان کا ساتھ دیا۔ اس طرح جنرل ضیا سیاسی طور پر مزید کمزور ہوئے۔

اور پھر 1988 میں راولپنڈی میں آئی ایس آئی کے ایک کیمپ (اوجھڑی کیمپ) میں میزائلوں کے حادثے کی تحقیقات کا حکم وزیر اعظم جونیجو نے دیا جو غالباً جنرل ضیا کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ لیکن وہ چپ رہے۔ پھر ایک جونیئر فوجی کی شہریوں سے لڑائی کے واقعے کو ایک موقع سمجھتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں بدعنوانی کے الزامات کے تحت برطرف کر دیں اور قومی اور صوبائی اسمبلیاں بھی توڑ دیں۔ لیکن چند دنوں ہی میں نواز شریف کی پنجاب میں وزارت اعلیٰ بحال کردی گئی۔

بے نظیر بھٹوتصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
Image caption غیر شادی شدہ بینظیر بھٹو کے لیے سیاست کرنا مشکل بنا دیا گیا تھا

شادی، بلاول اور الیکشن

وطن واپسی کے بعد بینظیر بھٹو نے جب جمہوری فاختاؤں کی تحریک کا آغاز کیا تو جہاں انہیں جنرل ضیا کی 'رژیم' کی جبریت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہیں ان کا ایک ایسے میڈیا کا بھی سامنا ہوا جس نے چھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعے بینظیر کے غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اشاروں کنائیوں میں گھٹیا قسم کے پراپیگینڈے کے ذریعے بینظیر بھٹو کی کردار کُشی شروع کردی۔

کبھی ان کے فیصل صالح حیات سے قربت کی باتیں بنائی گئیں، کیونکہ وہ اپنے تاریخی استقبال کے بعد فیصل حیات کی رہائش گاہ میں ٹھہری تھیں، کبھی کسی اور سے تعلقات کی کہانی کو ہوا دی گئی۔ اسی پس منظر میں بینظیر بھٹو کی آصف زرداری سے شادی ہوئی۔ اور ادھر اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد حسب سابق جنرل ضیا نے نوّے دنوں میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا مگر تاریخ کا اعلان نہ کیا۔ نگراں کابینہ بنائی مگر آئین کو نظرانداز کرتے ہوئے وزیر اعظم کا تقرر نہیں کیا۔

بینظیر کو ہمیشہ سے ہی ایک ایسے سیاسی ماحول کا سامنا کرنا پڑا جہاں ان کے مخالفین ان کی کسی بھی کمزوری کا کسی بھی گھٹیا سطح پر جا کر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے۔ اور وہ اس کے لیے تیار تھیں۔ اپنی شادی کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ بچے چاہتی ہیں تو ان کا فوری جواب تھا مجھے ابھی کچھ انتظار کرنا ہو گا۔ لیکن جب وہ یہ جواب دے رہی تھیں تو وہ اس وقت حاملہ ہو چکی تھیں۔

لیکن وہ اپنے بڑھتے ہوئے پیٹ کو ڈھیلے ڈھالے شلوار قمیض کے ذریعے پوشیدہ رکھ رہی تھیں۔ کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ ان کو ایک ایسے مخالف کا سامنا ہے جو ان کے ایام زچگی کو دیکھ کر انتخابات کی تاریخ طے کرے گا۔ بینظیر نے یہ مشہور کرایا کہ ان کے ہاں پیدائش نومبر میں متوقع ہے۔

اگرچہ بینظیر بھٹو نے پوری کوشش کی کہ اپنی جسمانی صورت کو پوشیدہ رکھیں مگر چادر اور چاردیواری کا تحفظ کرنے والی سلامتی کے اداروں کو ایک رحم مادر کی جاسوسی کرنی تھی۔ اور انھیں پتہ چل گیا کہ بینظیر ماں بننے والی ہے، لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔ جنرل ضیا کا جہاز حادثے کا شکار ہوا اور وہ ہلاک ہوئے۔

بے نظیر بھٹوتصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
Image caption بینظیر بھٹو اور ان کے بھائی سیاسی سازشوں کا نشانہ بنے

انتخابات کا شیڈول ایسا دیا گیا تھا جس میں انتخابی مہم ستمبر میں شروع ہوتی تھی اور پولنگ اکتوبر میں ہونا تھی۔ ایک محقق کے مطابق یہ تاریخ کے پہلے انتخابات تھے جن میں مخالف لیڈر کی زچگی کی تاریخوں کی بنیاد پر طے کیے گئے یا دوسرے الفاظ تھے یہ پہلے انتخابات تھے جن میں زچگی سب سے بڑا معاملہ تھی۔ بلاول 21 ستمبر 1988 کو پیدا ہوئے اور انتخابات 9 اکتوبر کو۔

اگرچہ اور بھی کئی خواتین سیاست میں آئی ہیں جن کے سیاسی کریئر میں ان کی زچگی کا اہم کردار ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ کی سابق مارگریٹ تھیچر یا انڈیا کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی، اس کے علاوہ اسرائیل کی سابق وزیر اعظم مسز گولڈا مئیر۔ پھر آج بھی کتنی خواتین ہیں جنھیں زچگی کی وجہ سے اور صرف اپنی صنف کی وجہ سے اپنا سیاسی کریئر بدلنا پڑتا ہے۔

چند مشہور ناموں میں ترکی کی سابق وزیر اعظم تانسو چلر، نکارا گوا کی وائیویلیٹا چمورو، چین کی ایک خاتون رہنما، تزاُو ہسی، کینیا کی سابق وزیر اعظم کم کیمبیل، ناروے کی گرو ہارلیم برونڈٹلینڈ، ارجینٹائین کی آئیزا بیلا پیرون، بنگلہ دیش کی خالدہ اور حسینہ واجد، سری لنکا کی مسز بندرا نائیکا، نیوزی لینڈ کی ہیلن کلارک اور ابھی حال ہی میں آسٹریلیا کی جولیا گیلارڈ۔ ان سب نے عورت ہوتے ہوئے سیاست میں نام پیدا کیا ہے۔ مگر بے نظیر جیسے نامساعد حالات کا سامنا کسی نے نہیں کیا۔

بینظیر بھٹو ان تمام خواتین میں اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ انھوں نے عورت کی زندگی کے جسمانی طور پرکمزور ترین لمحوں کو طاقت میں بدل ڈالا۔ تاہم دنیا کو اس وقت بے نظیر بھٹو سے مایوسی ہوئی جب وہ اقتدار میں آئیں مگر انتظامی طور پر ایک کمزور لیڈر نظر آئیں۔ ان کے پہلے دور میں نہ کوئی بڑی قانون سازی ہو سکی، نہ کوئی بڑا اقتصادی فیصلہ۔ لیکن مصالحت کی حکمت عملی سے انھوں نے جنرل ضیا کے حامی کئی سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملایا۔

لیکن ان کے ناقدین ان کی ان کمزوریوں پر تو بات کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ جنرل ضیا ایک جہاز کے حادثے میں ہلاک ہوئے تھے مگر ان کا بنایا ہوا نظام پوری طرح برقرار تھا یہاں تک کہ آٹھویں ترمیم کی وجہ سے وہ مردہ ہونے کے باوجود بھی پاکستان کے صدر تھے!

1988 کے انتخابات میں ان کی لینڈسلائیڈ کامیابی کو روکنے کے لیے راتوں رات اسلامی جمہوری اتحاد کھڑا کیا گیا اور انھیں پنجاب میں حکومت بنانے سے روکا گیا۔

جنرل ضیا کی سب سے بڑی اور طاقتور قوت خود فوج تھی جو اس دوران ایک ناقابل یقین حد تک اسلامائیز ہوچکی تھی۔ فوج نے سیاست سے کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے حریف بنا لیے تھے۔ لیکن بینظیر نے سیاسی سفر کو آگے بڑھانے کے لیے مصالحت کی حکمت عملی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے رہنما غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کیا اور جنرل اسلم بیگ کو جمہوریت کا تمغہ عطا کیا۔

لیکن پھر بھی اسٹیبلشمینٹ نے بینظیر کی حکومت کو کام کرنے سے روکنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ صرف دو برس سے کم عرصے کی حکومت، جس کو گرانے کی دو بڑی سازشیں ہوئیں تھیں، اسے صدارتی اختیارات کے ذریعے گھر روانہ کردیا گیا۔ بینظیر کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر غلام اسحاق خان اور انہی سے تمغہ جمہوریت لینے والے فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ نے ان کی حکومت کو برطرف کیا۔

غلام اسحاق خانتصویر کے کاپی رائٹ STR
Image caption غلام اسحاق خان کو بے نظیر بھٹو نے صدر منتخب کیا لیکن انھوں نے بینظیر بھٹو کی حکوٹت برطرف کرفدی

تاریخ کا فیصلہ

لیکن بینظیر بھٹو نے کسی مرحلے پر اور کتنے ہی تلخ تجربات کے باوجود اپنے مخالفین، دھوکہ دینے والوں اور بدل جانے والوں سے مصالحت کی سیاست ترک نہ کی۔ اور جب وہ نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار میں جلاوطن ہوئیں تھیں تو انھوں نے اسی نواز شریف کے برے وقت میں آئندہ کے لیے جمہوری جدو جہد کے لیے اور فوجی مداخلت روکنے کے لیے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ اور یہی وہ وقت تھا جب انھوں نے جنرل مشرف سے بھی مصالحت کی۔

نواز شریف اور بے نظیر بھٹوتصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
Image caption بینظیر بھٹو نے معزول نواز شریف کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔

تاریخ بینظیر بھٹو کے سیاسی کردار کو اس کے ماحول اور اس کے رویے کو سمجھنے میں ابھی بہت وقت لے گی۔

تاریخ دانوں کے اس مخمصے کو شاید بینظیر کے پسندیدہ جرمن تاریخ دان اوشولڈ شپینگلر سے زیادہ کوئی نہ سمجھتا ہو جس کے کئی حوالے بے نظیر بھٹو نے اپنی آخری کتاب Reconciliation: Islam, Democracy and the West میں سیمیوئیل ہنٹنگٹن کے تہذیبوں کے ٹکراؤ کے نظریے کو رد کرنے کے لیے دیے ہیں۔

بے نظیر بھٹوتصویر کے کاپی رائٹ John Moore
Image caption بے نظیر بھٹو کے بارے میں ابھی تاریخ کا فیصلہ آنا باقی ہے۔

شپینگلر کے مطابق، اکیڈیمکس (تاریخ دان) واقعات کو گزرجانے کے بعد ان کا اپنی معلومات کے مطابق تجزیہ کرتے ہیں جبکے تاریخ بنانے والا تاریخ بناتے ہوئے اپنی تخلیقی صلاحیت کے مطابق تاریخ کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے نت نئے اور نڈر فیصلے کررہا ہوتا ہے۔

شپینگلر ایک اور جگہ کہتے ہیں: 'ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمیں جو زندگی ملی ہے ہم اس کو اس طرح گزاریں کہ ہم اس پر فخر کر سکیں ۔۔۔۔۔ اسے جتنا بھی بامقصد بنا سکتے ہیں بنائیں۔ اور ہم اس طرح عمل کریں کہ ہمارا ہی کچھ حصہ ہمارے بعد حیات جاویداں پائے۔'

پاکستان کا مستقبل کیا سمت اختیار کرتا ہے شاید اسی سے بینظیر بھٹو کا تاریخ میں کردار طے ہو۔



Saturday 2 December 2017

First of all I would like to thank all of you on behalf of our family to come and celebrate birth and life of Prophet Muhammad peace be upon him. It is our great privilege to have you all here on this auspicious occasion. May Allah  accept and reward us all for this.




Prophet Muhammad is one of the greatest man in the history of the world. More than 1.8 billion people follow his teachings and morals. A man who was born 1400 years ago in a far-fetched land of Arabia who had at that time no connection to any civilisation. Within 63 years of his life he changed the history of the world forever. This probably is the greatest achievement the world has ever seen.




His life is worthy to be celebrated and remembered every day. His moral standards, his decisions, his piety and his respect for life is worth sharing and learning  from. We all should reflect on our lives in the shadows of the life of Prophet Muhammad peace be upon him and learn from his examples.




We hope that today's experience will be of a spiritual fulfilment.  Where we all will be able to learn, share, and improve our lives and our society.




Every event in Prophet Muhammad's life has a lesson for all the humanity. I would like to bring 3 of the lessons from his beautiful life. I hope we will learn from these examples and reflect on our lives.




First lesson from the life of the Prophet Muhammad peace be upon him I would like to share today is his kindness towards others. If we read his biography and other scriptures written about him they are full of example of his kindness. Kindness not just to the fellow human being but even to the animals. He never spoke harsh words to anyone. He never betrayed anyone. He never broke any of his promises. He always respected women and children even in the worst of the circumstances. Allah called him as Rehmat for all the universe.




Second lesson I would like to share today is his conduct in relation to their communities which were persecuted. Be it the women of that era or the slaves or the poor. He was always there to listen to them to help them out and to stand for their rights. In his last sermons he was who said "O people! Indeed, your Lord is one and your father is one. Indeed, there is no superiority of an Arab over a non-Arab, nor of a non-Arab over an Arab, nor of a white over a black, nor a black over a white, except by taqwa." In the world full of hate bigotry and persecution he was and still is  a beacon of light.




The third lesson I would like to share  about the life of the Prophet Muhammad peace be upon him is his simplicity. He spent all his life as a simple man. He did not had a big house nor did he had lots of money but still commanded respect of all the Arabian peninsula. His diet was simple his dress was simple, his  lifestyle was simple his house was simple. He ever eaten a lavish meal. he always donated everything which was more than what we needed. He could have all the riches of the world but he opted for simple and honest life.


I think we all should reflect on our lives based on lessons from the holy life of Prophet Muhammad Peace be upon him.


May allah shower his countless blessings on Prophet muhammad and family and enable to follow their footsteps.



Amin  


Sunday 8 October 2017

شہادتِ امیر المومنین عثمانؓ ذی النورین

Qari Hanif Dar

شہادتِ امیر المومنین عثمانؓ ذی النورین !

ھم جب شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں پڑھا کرتے تھے تو لکھا ھوتا تھا '' سبائیوں '' نے یوں کیا اور ووں کیا ، سبائی کو ھم بلوائی کے معنوں میں لیتے تھے کہ بلوائیوں نے فلاں اور فلاں زیادتی کی ،، بعد میں پتہ چلا کہ یہ سبائی اصل میں عبداللہ ابن سبا کے پیروکاروں کو کہتے ہیں جو کہ ایک چیچک زدہ تیرہ رُو حبشی تھا ، اس نے دیکھتے ہی دیکھتے مختلف صوبوں کا دورہ کیا اور لوگوں کو خلیفہ وقت سے بدظن کر دیا ، اور دوسرا تاثر یہ تھا جو کہ ھم بھی کل تک لکھتے رھےکہ مختلف صوبوں سے آنے والے یہ لوگ نو مسلم تھے جنہیں دینِ اسلام اور صحابہ کرامؓ کے مقام و مرتبے کا کچھ احساس و پاس نہیں تھا ، لہذا یہ حادثہ فاجئہ ھو گیا !

پھر جب پڑھا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت میں کچھ جید صحابہؓ نے بھی اھم رول ادا کیا جو السابقون الاولون میں سے بھی تھے ، انصار مدینہ کا بھی رول تھا یوں اس سوال کا جواب ملتا ھے کہ بلوائی اتنے دن تک بے روک وٹوک مدینے میں دندناتے کیوں رھے ـ

پہلے ان اصحابؓ کا نام اور مرتبہ ملاحظہ فرما لیجئے جنہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شھید کیا ،فزیکلی قتل میں کوئی بلوائی شامل نہیں تھا بلکہ اصحاب رسولﷺ نے قتل میں سرگرم حصہ لیا یہانتک کہ شھید خلیفہ کی تدفین بقیع میں نہ ھونے دینے والا بندہ بھی انصاری صحابیؓ تھا ، جیسا کہ آپ پڑھیں گے کہ یہ خبریں ھمیں عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کی طرف سے نہیں ملیں کہ ان کو جھٹلایا جا سکے بلکہ ھمارے اپنے محدثین اور راویوں کی چھان پھٹک کرنے والے اصحاب الرجال کی جانب سے دی گئ ہے !

۱ـ فروہ بن عمرو الانصاری جو بیعت عقبہ میں بھی موجود تھے اور السابقون الاولون کے رضی اللہ عنھم میں سے ہیں ـ

[ ﴿استیعاب ۳: ۵۲۳ ]
[ اسد الغابہ ۴/۷۵۳]

2۔محمد بن عمرو بن حزم انصاریؓ یہ وہ صحابی رسول ﷺ ہیں جن کا نام بھی خود رسول اللہ ﷺ نے رکھا تھا 
.﴿استیعاب۳: ۲۳۴﴾

3۔جبلہ بن عمرو ساعدی انصاریؓ بدری .یہ وہ صحابی تھے جنہوں نے حضرت عثمانؓ کے جنازہ کو بقیع میں دفن نہیں ہونے دیا تھا 
[تاریخ المدینۃ ۱: ۲۱۱]

4۔ عبدا للہ بن بُدیل بن ورقاء خزاعؓی .یہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لاچکے تھے امام بخاری کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمان ؓ کا گلا کاٹا تھا .
﴿تاریخ الاسلام از بخاریؒ ﴿ الخلفاء﴾: ۷۶۵﴾

۔5۔۔ محمد بن ابو بکرؓ : یہ حجۃ الوداع کے سال میں پیدا ہوئے اور امام ذہبی کے بقول انہوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان کی ڈاڑھی کو پکڑ کر کہا : اے یہودی ! خدا تمہیں ذلیل و رسوا کرے .
﴿تاریخ الاسلام از بخاری : ۱۰۶
6:عمروبن حمقؓ : یہ بھی صحابی رسولؐ تھے جنہوں نے امام مزی کے بقول حجۃ الوداع کے موقع پر محمد رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی تھی اور امام ذہبی کے بقول یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے حضرت عثمانؓ پرخنجر کے پے در پے نو وار کرتے ہوئے کہا: تین خنجر خداکے لئے مار رہا ہوں اور چھ اس چیز کے بارے میں جو تیرے بارے میں میرے دل میں ہے !

﴿﴿ وثب علیہ عمرو بن الحمق وبہ عثمان رمق وطعنہ، تسع طعنات وقال : ثلاث للہ وستّ لمّا فی نفسی علیہ.﴾﴾
﴿تہذیب الکمال۴۱:۴۰۲؛
تہذیب التہذیب ۸:۲۲ ﴾

7۔ عبدالرحمن بن عدیسؓ : یہ اصحاب بیعت شجرہ میں سے ہیں اور قرطبی کے بقول مصر میں حضرت عثمان ؓکے خلاف بغاوت کرنے والو ں کے لیڈر تھے یہاں تک کہ حضرت عثمانؓ کو قتل کر ڈالا .
﴿استیعاب ۲: ۳۸۳؛ 
تاریخ الاسلام از بخاری﴿ الخلفاء﴾: ۴۵۶﴾

اب سوال یہ ھے کہ ان قاتل اصحاب کے بارے میں ھمارے اکابر علماء اور محدثین کا رویہ کیا تھا ـ

امام بخاریؒ تاریخِ اسلام میں لکھتے ہیں 
[کلّ من ھؤلاء نبرئ منھم ونبغضھم فی اللہ ...نرجو لہ النّار ] ان سب قاتلین سے ھم اعلانِ برآت کرتے ہیں، اور ان سے اللہ کی خاطر بغض رکھتے ہیں اور ان میں سے ھر ایک کے آگ میں جانے کی آرزو کرتے ہیں 
[تاریخ الاسلام از بخاریؒ
(الخلفاء ۴۵۶]

امام ابن حزم لکھتے ہیں:

﴿﴿لعن اللہ من قتلہ، والرّاضین بقتلہ ...بل ھم فسّاق محاربون سافکون دما حراما عمدا بلا تأویل علی سبیل الظّلم والعدوان فھم فسّاق ملعونون﴾﴾[الفصل ۳: ۴۷و ۷۷ ]

خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے حضرت عثمان ؓکو قتل کیا اور جو ان کے قتل پر راضی ہیں( یعنی جو نہ مانے وہ بھی کافر ) ...یہ لوگ فاسق ، محارب اور بغیر تاویل کے محترم خون بہانے والے ہیں لہذا فاسق و ملعون ہیں .

صحابہ پر بےخوف ھو کر لعنتیں کرنے والے یہ سارے اھلسنت علماء ہیں ،

اب سوال یہ ھے کہ ایک طرف تو یہ اکابر علماء جو Opinion Maker ہیں اصحابِ بدر، اصحابِ شجرہ اور اصحاب بیعتِ عقبہ پر لعنت کر رھے ہیں ، جبکہ دوسری جانب آلِ رسول ﷺ کے چھوٹے بچوں ، جوانوں اور ستر سالہ بوڑھے کو شھید کرنے والے یزید پر لعنت کی ممانعت کی جاتی ہے کیا یہ کھلے سے بھی بڑا تضاد نہیں ہے ؟

مقتول بنو امیہ سے تعلق رکھتا ھو تو اس کے قاتل پر لعنت اگرچہ وہ جید صحابہؓ ہی کیوں نہ ھوں ،، اور اگر مقتول بنو ھاشم کا ھو تو قاتل رحمۃ اللہ علیہ اور مغفور لھم ھو جاتا ھے

ISI & RAW


Tuesday 3 October 2017

جون ایلیا


پشتِ رسولِؐ پاک پر جلوہ نما امام دو
مرکبِ خوش خرام ایک، راکب لالہ ٖفام دو
نورِ جبینِ مصطفیؐ ، ظلمتِ گیسوئے دوتا
جلوہ گہ ء حرم میں آج، صبح ھے ایک , شام دو
غارِ حرائے احمدی ،خمِ غدیری حیدری
مقصدِ فیضِ عام ایک ، منظرِ فیضِ عام دو
طور و جمال کبریا ، دوشِ نبی و مرتضیؑ
اھلِ نظر سے پوچھیے ، جلوہ ھے ایک بام دو
روئے علیؑ پہ اک نگاہ ، جانِ نگاہِ دیں پناہ
اھلِ نظر نے لے لیے ، ایک نظر سے کام دو
سرخی ء عارضِ چمن، شوخی ء غازہ ء شفق
خوب لیے حسینؑ نے، خونِ جگر سے کام دو

Sunday 24 September 2017

الله دا انتخاب محمد و آلهٍ

الله دا انتخاب  محمد و آلهٍ
اول عزت مآب  محمد و آلهٍ
بےشک خدا دے نور دا جلوہ ہے جا بجا 
جلوے دی آب و تاب  محمد و آلهٍ
صلوات پڑھ کے لفظ "ا ل م" پڑھ 
ہے "ذالک الکتاب"  محمد و آلهٍ
جیویں قران پاک دا کوی جواب نئیں
اونیں ہے لاجواب محمد و آلهٍ
اللہ دی کبریائی دی ناں حد ناں کوئی حساب 
رحمت ہے بے حساب  محمد و آلهٍ
تحت الکسا ہے آیت تطہیر دا نزول 
درپردہ بوتراب ، محمد و آلهٍ

مصطفیٰ خادم 

Thursday 31 August 2017

شرف الدین بو علی قلندرؒ


یہ کلام حضرت شرف الدین بو علی قلندرؒ کا ہے
اگر بینم شبِ ناگاں، مناں سُلطانِ خوباں را سرم در پائے وے آرم، فِدا سازم دل و جاں را

اگر میں کسی رات شھنشاہِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوں تو میں اپنا سر آپ کے قدموں میں رکھ دوں ااور اپنی جان اپنا دل آپ پے قربان کر دوں
بگردِ کعبہ کے گردم کہ روئے یارِمن کعبہ کُنم طوافِ مئے خانہ، ببوسم پائے مستاں را

میں کعبہ کے گرد کیوں گھوموں کہ میرے یار کا چہرہ ہی میرا کعبہ ہے میں مئے خانے کا طواف کرتا ہوں اور مستوں کے پائوں چومتا ہوں

رَوم در بتکدہ شینم با پیشِ بت کُنم سجدہ اگر یابم خریدارے فروشم دین و ایماں را

اگر میں بتکدے میں جائوں تو اپنے یار کے سامنے سجدہ ریز ہو جائوں اگر میرا یار مجھے خریدے تو میں اپنا دین و ایمان بھی بیچنے سے انکار نہ کروں

مگوئی کلمہ ءِ کُفرش اگر گوئی شوی کافر بروع اے مدعی ناداں چہ دانی سـرِ مستاں را

اگر تو کہتا ہے کہ میں کلمہِ کُفر کہتا ہوں اگر میں کہتا ہوں تو میں کافر ہوں اے مُدعی ناداں تو یہاں سے چلا جا کہ تو مستوں کے رازوں اور باتوں کو نہیں سمجھتا

سرم پیچاں ، دلم پیچاں، منم پیچیدہِ جاناں شرف چومارمی پیچد چہ پیچد زُلفِ پیچاں را

میرا دماغ، میرا دل اور سب کُچھ یار میں گُم ہے اُلجھا ہے شرف کو فخر ہے کہ وہ زُلفِ ہار کا قیدی ہے


احمد فراز

اُس نے جب چاہنے والوں سے اطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی

یونہی بیکار میں کب تک کوئی بیٹھا رہتا
اس کو فرصت جو نہ تھی ہم نے بھی رخصت چاہی

شکوہ ناقدریِ دنیا کا کریں کیا کہ ہمیں
کچھ زیادہ ہی ملی جتنی محبت چاہی

رات جب جمع تھے دکھ دل میں زمانے بھر کے 
 آنکھ جھپکا کے غمِ یار نے خلوت چاہی

ہم جو پامالِ زمانہ ہیں تو حیرت کیوں ہے
ہم نے آبا کے حوالے سے فضیلت چاہی

میں تو لے آیا وہی پیرہنِ چاک اپنا
اُس نے جب خلعت و دستار کی قیمت چاہی

حُسن کا اپنا ہی شیوہ تھا تعلق میں فراز
عشق نے اپنے ہی انداز کی چاہت چاہی

(احمد فراز)

Wednesday 16 August 2017

لفظ 'پاکستان' کے خالق چوھدری رحمت علی 'غدار' قرار دیے گۓ. بیچارے کمپسری کی حالت میں دیار غیر میں فوت ھوۓ. قرار داد پاکستان پیش کرنے والے فضل حق 'غدار' قرار دے کر مسلم لیگ سے نکال دیے گۓ. سہروردی اور خواجہ ناظم الدین... اچھا چھوڑیں , ھمارے بچے اتنی تفصیل میں نہیں جاتے ... بس رٹا لگاتے اور مطالعہ پاکستان کا پرچہ پاس کرتے ھیں.... فاطمہ جناح کو تو سب جانتے ھیں... قائد اعظم کی بہن تھیں... انکو بھی ایک ائین شکن نے بھارتی ایجنٹ اور غدار قرار دے کر وہ اخلاق سے گری ھوئی کیمپین چلائی ت...ھی کہ الامان الحفیظ.... حاصل کلام یہ کہ اگر اپ کو عامر لیاقت اور شاھد مسعود جیسے 'صاحبان علم' سے یہ سننے کو ملے کہ فلاں ابن فلاں غدار اور ملک دشمن ھے تو بہت ممکن ھے وہ ھی سب سے بڑا محب وطن اور محسن ملت ھو....جیسا کہ مولانا سندھی نے لکھا کہ یہ جو تم تاریخ اسلام میں پڑھتے ھو کہ فلاں ابن فلاں بہت بڑا کافر اور زندیق تھا... اصل میں یہ اپنے وقت کے باغی اور مومنین تھے جنہوں نے ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کیے. ظالم حکمرانوں نے علماۓ سو کے ساتھ مل کر انکو کافر اور زندیق مشہور کروا ﮈالا.


credit: #FahadRizwan

Araamgaah-e-banda-e-sarkaar-e-buTuraab

Monday 13 March 2017

100 most common English words

Nouns

  1. time
  2. person
  3. year
  4. way
  5. day
  6. thing
  7. man
  8. world
  9. life
  10. hand
  11. part
  12. child
  13. eye
  14. woman
  15. place
  16. work
  17. week
  18. case
  19. point
  20. government
  21. company
  22. number
  23. group
  24. problem
  25. fact

 

Verbs

  1. be
  2. have
  3. do
  4. say
  5. get
  6. make
  7. go
  8. know
  9. take
  10. see
  11. come
  12. think
  13. look
  14. want
  15. give
  16. use
  17. find
  18. tell
  19. ask
  20. work
  21. seem
  22. feel
  23. try
  24. leave
  25. call

 

Adjectives

  1. good
  2. new
  3. first
  4. last
  5. long
  6. great
  7. little
  8. own
  9. other
  10. old
  11. right
  12. big
  13. high
  14. different
  15. small
  16. large
  17. next
  18. early
  19. young
  20. important
  21. few
  22. public
  23. bad
  24. same
  25. able

 

Prepositions

  1. to
  2. of
  3. in
  4. for
  5. on
  6. with
  7. at
  8. by
  9. from
  10. up
  11. about
  12. into
  13. over
  14. after
  15. beneath
  16. under
  17. above

 

Others

  1. the
  2. and
  3. a
  4. that
  5. I
  6. it
  7. not
  8. he
  9. as
  10. you
  11. this
  12. but
  13. his
  14. they
  15. her
  16. she
  17. or
  18. an
  19. will
  20. my
  21. one
  22. all
  23. would
  24. there
  25. their