Saturday 26 September 2015

زمین کی پستیوں پہ رہ کر
 فلک کا رفت نشین بھی تھا 
جو بے یقینی کی تیرگی میں 
اک آفتاب یقین بھی تھا 
وہ ایسا امی
جو علم و عرفان و آگہی کی کتاب لایا
شرافتوں کا نساب لایا
نجابتوں کا حساب لایا
جو فکر کے بحر منجمد میں 
تنوج و انقلاب لیا
وہ جس نیں دولت کا سحر توڑا
بلال کو رہبر بنایا 
حصار ظلم و ستم گرایا
سلامتی کا نگر بنایا 
غرور و نخوت کو بے حقیقت
تو عجز کو معتبر بنایا 
اسی  کا صدقہ کہ سر زمین عرب کا چہرہ ہے رشک گلشن
فضائیں نغمے سنا رہی ہیں زمین سونا اگل رہی ہے 
اسی (ص) کا صدقہ کہ ضمیروں کی ایک جمعیت
زر و جوہر میں پل رہی ہے 
لرزتے ہاتھوں میں جام و مینا
نجس زبانوں پہ نام اسکا 
عمل ابوجہل و ابرہا کا
نمائشی احترم اسکا
غلیظ جسموں پہ صاف کپڑے 
شبیہ اسکے لباس کی ہیں 
یہ زندہ لاشیں
مسرتوں کی جبیں پہ تصویر یاس کی ہیں 
جو اس کے مسلک سے منحرف ہیں
وہ پاسبان حرام بنے ہیں 
جو ساری ملت کے حق کےغاصب ہیں 
آج اہل کرم بنے ہیں 

عاشورکاظمی

Sunday 20 September 2015

آشور کاظمی

دست نبی و شیر خدا ؛ یا علی  مدد

 انسانیت کے رہنما ؛ یا علی  مدد

دست یزید عصر میں ہے پھر نظام دہر 

ہر ہر قدم ہے کرب و بلا ؛ یا علی  مدد

چھینی ہوا غرب نیں ،فیشن کے نام پر 
سیدانیوں کے سر سے ردا ؛ یا علی  مدد

کہرام ہے خیام صداقت میں آج بھی 
آتی ہے العطش کی صدا ؛ یا علی  مدد

اہل نظر بھی دینے لگے ظلم کو خراج 
بےبس ہے کتنی خلق خدا ؛ یا علی  مدد

گھر جل رہے ہیں پرچم اسلام کے تلے 
سر ہو رہے ہیں تن سے جدا ؛ یا علی  مدد

اے باب علم ؛ جہل کا سکا رواں ہے آج 
انسانیت ہے آبلہ پا ؛ یا علی  مدد

حد ہوگیی کہ مرے قبیلے کے لوگ بھی 
ظلمت کو کہ رہے ہیں ضیاء ؛ یا علی  مدد

لہرا رہے ہیں ظلم کے پرچم ہر ایک سو 
سچ بولنا ہے ظلم و خطا  ؛ یا علی  مدد

مولا ! متا ع  جرّت اظہار لٹ  گیی 
سینوں میں گھٹ گیی ہے نوا ؛ یا علی  مدد

ہم نیں کہا تو مورد الزام ہوگۓ 
خیبر میں خود نبی نیں کہا ؛ یا علی  مدد

مشکل نہیں ایسی کوئی جس کا حل نہ ہو 
دل سے کوئی کہیں تو ذرا ؛ یا علی  مدد


آشور کاظمی 

Saturday 19 September 2015

ساکوں حور قصور دی لوڑ کاینائی تیڈی بھا دے ڈر سجدے کروایے

کمزور جو ھیں ہر طاقتور ساکوں اپنڑے در سجدے کروایے 
 کہیں مسجد وچ سجدے کروایےکہیں مندر وچ سجدے کروایے
تیڈا اسرا ہا ہائی تڈ تیڈی تیں اپنڑے در سجدے کروایے
ساکوں حور قصور دی لوڑ کاینائی تیڈی بھا دے ڈر سجدے کروایے
تیڈے گھردا پتھر چمدے ہوئیں خلقت دے دکھے جھل آے ہیں 
کعبے دا بند دروازہ ہا اساں دھاییں پھیر تے ول  آیے ہیں 


قربان کلاچی 


Friday 18 September 2015

از بزمِ جہاں خوشتر، از حور و جناں خوشتر
یک  ہمدمِ  فرزانہ ،  وزبادہ  دو  پیمانہ

میرے رسول که نسبت تجھے اجالوں سے

میرے رسول که نسبت تجھے اجالوں سے
 میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
 نا میری نعت کی محتاج ہے ذات تیری
 نا تیری مدح ہے ممکن میرے خیالوں سے
 تو روشنی کا پیامبر ہےاور میری تاریخ
بھری پڑی ہے شب ظلم کی مثالوں سے
تیرا پیام محبت تھا اور میرے یہاں
دل و دماغ ہیں پر نفرتوں کے جالوں سے
میرے ضمیر نیں قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے
میں بے بساط کا شاعر ہوں پر کرم تیرا
که با شرف ہوں قبا اور کلہ والوں سے

Sunday 13 September 2015

ایک شہزادی

ایک شہزادی 

ایک شہزادی کا لوگوں کے دلوں پہ راج تھا 
اسکے سر پہ باپ کی قربانیوں کا تاج تھا 
غم میں ڈوبا کل تھا اس کا ، دکھ میں ڈوبا آج تھا 
اس کے خون سے سرخرو ہو ، وقت بھی محتاج تھا 
اے بہارو بال کھولو گریہ و زاری کرو
اے مرے اشکو ذرا گرنے کی تیاری کرو 

خواب ہم سب کے تھے اور وہ خواب کی تعبیر تھی 
بے زبان محنت کشوں کے عزم کی تاثیر تھی 
جس نیں سب کو ایک کر رکھا تھا وہ زنجیر تھی 
وہ کوئی عورت نہیں تھی قوم کی تقدیر تھی 
ایک پل نیں سب کے دل کو پارہ پارہ کر دیا 
وہ زمین کا چاند تھی عنمبر کا تارا کر دیا 

وہ غریبوں کے لیے امید کی تنویر تھی 
کاتب تقدیر کی لکھی ہوئی تحریر تھی 
دشمن حق کیلئے ترکش سے نکلا تیر تھی 
حوصلے میں ہو با ہو وہ باپ کی تصویر تھی 
پھول سے ماتھے پہ اپنے زخم گہرا کھایے گی 
کیا خبر تھی اس کو دشمن کی نظر لگ جایے گی 

تھی بلوچوں کی بہو ، مہران کی بیٹی تھی وہ 
جسم میں پنجاب کے بن کے لہو بہتی تھی وہ
کس طرح میں یہ بتلاؤں تجھے کیسی تھی وہ 
ہر کسی کی دوست تھی ہر ایک کی ساتھی تھی وہ 
آس  تھی کشمیر کی اور آرزو پختون کی 
دے سکے گا کیا کبھی قیمت کوئی اس خوں کی

ہجرتوں کے سایے میں کیا نالہ شبنم نہ تھا 
باپ کا غم بھائیوں کے دکھ سہے کیا کم نہ تھا 
ماں کی بیماری بھی کیا تقدیر کا ماتم نہ تھا 
کیا کوئی ایسا بھی غم ہے جو اس کا غم نہ تھا 
شخصیت میں وہ اثر تھا جس کے تھے سب ہی اسیر 
درحقیقت وہ کروڑوں کے لیے تھی بے نظیر 

وہ میری تاریکیوں میں پھوٹتی صبح  سحر 
وہ مرے دل کی تمناؤں کی دنیا کا قمر 
وہ زمانے کی دہکتی دھوپ میں پھیلا شجر 
وہ میری دھرتی کی صدیوں کی دعاؤں کا ثمر  
اس کے سر پہ رکھ دیا ہے وقت نیں کرنوں کا تاج 
رہتی دنیا تک رہے گا دل میں شہزادی کا راج