Friday 31 October 2014

میرانیس

اۓ مدگار و معین الضفاء ادراکنی 
اۓ خبرگیر گروہ غرباء ادرکنی 
پاؤں لرزش میں ہے اۓ دست خدا ادرکنی 
ہاتھ بندھے ہوے ہوں اۓ عقدہ کشا ادرکنی 

دیجئے حر کو سند نار سے رہائی کی 
آیے جلد خبر لیجئے فریادی کی 


وہ دودامان ے حیدری ، آل پیغمر کی لاش 
وہ آیتوں کی گود میں سوۓ ہوۓ  اکبر کی لاش 
وہ اک بریدہ بازوں والے علم پرور کی لاش 
وہ دھودھ پیتے لوریاں سنتے علی اصغر کی لاش 
معصوم بچے وحشیوں کی جھڑکیاں کھایے ہوۓ  
عون و محمد چھوٹے چھوٹے ہاتھ پھیلایے ہوۓ 

مصطفیٰ  زیدی 

Tuesday 28 October 2014

تب شمر سے بولا پسر سعد ے بد اختر 
عبّاس کے تو رعب سے تھراتا ہے لشکر 
نزدیک ہے اٹھ جاییں قدم فوج کے یکسر 
اس غازی سے کر صلح تو ہے جنگ سے بہتر 

تلوار چلی گر تو خدا جانیے کیا ہو 
کچھ فکر کر ایسی کہ یہ بھائی سے جدا ہو 

اس نحس نیں کی سعد کے بیٹے سے یہ تکرار
حاکم ہے تیرے حکم سے مجھ کو نہیں انکار 
ظاہر ہے وفاداری ے عبّاس علمدار 
یہ بات نہ مانے نہ مانے گا وہ زنہار 

خون اس کا پسینے پہ شاہ دیں کے گرے گا 
ہو جایے گا ٹکڑے پر نہ بھائی سے پھرے گا 

ساونت، نور نظر شاہ نجف ہیں 
یہ جس کے طرفدار ہیں بس اس کی طرف ہیں 

یہ کہہ کے وہ مکار چلا سوۓ علمدار 
اور غیض سے یاں سرخ ہوا روۓ علمدار 
غصے سے کھڑے ہو گیے سب مو ے علمدار 
بل کھانے لگے گھسو ے خوشبو ے علمدار

ابرو پہ تو بل آگیا شمشیر کی صورت 
دیکھا طرف ے شمر لعین شیر کی صورت

شعلے کی طرح کانپ گیا  ڈر سے وہ ناری 
پیچھے بھی ہٹا اور بڑھا  بھی کئی باری 
دہشت میں یہ تقریر زبان سے ہوئی جاری 
حاکم نیں مجھے بھیجا ہے اے عاشق ے باری 

غصے کی نہ باتیں ہیں نہ لڑائی کے سخن ہیں 
سن لیجئے حضرت کی بھلائی کے سخن ہیں 

فرمایا علمدار نیں کہہ کیا ہے وہ پیغام 
پھر دست ادب جوڑ کے بولا یہ وہ خود کام 
کرتے ہیں عبث آپ لڑائی کا سر انجام 
حضرت کے تو ہے نام کی عاشق  سپاہ ے شام

مشتاق ملاقات کے سب چھوٹے بڑے ہیں 
واں ہاتھوں میں نذریں لیے سردار کھڑے ہیں 

چلے میرے ہمراہ ادھر کو تو ہے بہتر 
وہاں آپ کی خاطر ہے علمداری ے لشکر 

جاگیر بھی ہاتھ آیے گی راحت بھی ملے گی 
دولت بھی ، مدینے کی حکومت بھی ملے گی

کیوں آپ اٹھاتے ہیں ادھر پیاس کی ایذا
افسوس کے ایسا جواں فاقوں پہ فاقہ 
وہاں پانی بھی موجود ہے کھانا بھی مہیا
حاکم تمہی لشکر کے تم ہی ملک ے دریا 

زنار نہیں بغض و حسد اور کسی سے 
ہم کو عداوت ہے حسین ابن علی سے

فرزندوں کو گر آپ کے ہے تشنہ دہانی 
لے آئیے ان کو وہ پیئیں شوق سے پانی 
شبیر کی منظور نیں پیاس بجھانی
حلق ان کا ہے اور خنجر ے برراں کی روانی

زینب کی ردا چھنیں گے اور لیویں گے اسباب 
پر آپ کی زوجہ کا  بھلا دیں گے ناں آداب  

عبّاس نیں جس دم یہ سنی شمر کی تقریر 
معلوم ہوا یہ کہ کلیجے پہ لگا تیر 
سر تا پا قدم کانپ گیا عاشق ے شبیر 
فرمایا زبان بند کر او ظالم بے تیر 

میں عاشق شبیر ہوں، میں اہل وفا ہوں
سر تن سے جدا ہو پر نہ بھائی سے جدا ہوں 
اس تفرقہ سازی کا مزہ تجھ کو دکھا دوں 
ہے شرط کے شمشیر کے شعلے سے جلا دوں 

مر کر بھی شاہ دیں میں میری جان رہے گی 
بھائی پہ میری روح بھی قربان رہے گی 
روشن ہو میرا نام بجھے شمع  امامت 
بے سر ہوں وہ اور پہنوں میں سرداری کا خلعت

خلعت تیرا کیا چیز ہے او ظالم ے بے تیر 
یاں حلا فردوس ہے اور دامن شبیر 


میر انیس 
کربلا ! ہے تجھ سے کتنی دور وہ نہر فرات 
جس کے پانی سے رہی محروم مظلوموں کی ذات 
تشنگی جس سے بجھاتی تھی سپاہ ے بد صفات 
موت تھی سراب جس سے اور پیاسی تھی حیات 
تر نہ اپنے لب کیے اک صاحب احساس نیں 
جس کے ساحل پر تیمم کر لیا عبّاس نیں 

آج تک پھیلی ہے تجھ میں کیسی  زندہ روشنی 
رو کش اوج فلک ہے روضہ سبط نبی 
ایک اک ذرے میں لہریں لے رہی ہیں زندگی 
استراحت کر رہی ہے تجھ میں اولاد ے علی
دامن دریا میں خاک آستیں جھاڑے ہوۓ 
شیر اک ساحل پہ سوتا ہے علم گھاڑے ہوۓ 

کچھ جوانان قریش ،  چند بچے، بیبیاں
جنگ کا سامان تھا نہ کوئی خونچکاں 
دین و ایماں کی حفاظت صلح کل ورد زباں
پشت پر قبر محمد، سامنے باغ جناں
ایک پیغام ے محبت امن عالم گیر کا 
تھا علم میں ایک پھریرا چادر ے تطہیر کا
صبا اکبر آبادی


Monday 27 October 2014

Tragedy of Karbala has no religion. Its a tragedy where few innocent people were hunted down by the barbarism of a dictatorial regime. till a single person is being oppressed, subdued, persecuted, and tyrannised, Karbala is relevent and ongoing… 


جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے 
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکر دیں ہے

جوش ملیح آبادی




زندگی ہے بر سر ے آتش فشانی  یا حسین 
آگ دنیا میں لگی ہے ؛ آگ ؛ پانی یا حسین
پھر بشر کے ذہن پر عکس ے جنوں ہے یا حسین 
پھر حقیقت رہن ے اوہام و وسوں ہے یا حسین  
پھر دل اقدار  نازک غرق خون ہے یا حسین 
پھر بشر باطل کے آگے سر نگوں ہے یا حسین 

آ دل انجام کو پھر گرمی آغاز دے
اے بہادر وقت کی آواز پر آواز دے 

جوش ملیح آبادی
کر دیا ثابت یہ تو نیں اے دلاور آدمی 
زندگی کیا موت سے لیتا ہے ٹکر آدمی 
کاٹ سکتا ہے رگ ے گردن سے خنجر آدمی 
لشکروں کو روند سکتے ہیں بہتر آدمی 

جوش ملیح آبادی

Sunday 26 October 2014

جنگ خیبر

لشکر نہ کر سکے گا تمہاری کوئی مدد ...... الله کہہ رہا ہے کہو یا علی مدد 

علمدار کا فوج شقی سے خطاب



اے فوج یہ کیا قہر ہے ، کیا بے ادبی ہے
سادات پے دو  روز سے یاں تشنہ لبی ہے
بے جرم و خطا سبط رسول عربی ہے 
مہماں ہے مسافر ہے دل و جان نبی ہے 
بھولو نہ وصیت کو رسول دو سرا کی 
تم ہو کلمہ گو یہ امانت ہیں خدا کی 

بن پانی تڑپتے ہیں یہ کس شخص کے اطفال 
سوچو یہ کوئی  اور ہے یا فاطمہ کا لعل
کیوں اپنے پیامبر کا چمن کرتے ہو پامال 
معصوم تو بے جرم ہیں اے قوم بد افعال 
دو تھوڑا سا پانی میرا دل غم سے تپا ہے 
یہ مشک ہے جس کی وہ بہت تشنہ دہاں ہے 

میر انیس 
بازو مصطفیٰ  کو غرض آ گیا جلال 
منہ ہو گیا جلال جہاں آفریں کا لال 
اٹھ کھڑے تھے غیض میں سارے بدن کے بال 
پھر شاہ ذولفقار نیں  تلوار لی سنبھال
ائی ندا یہ غیب سے؛ از جلد ناگہاں 
جبریل و مکایل و سرافیل کو کہ ہاں 
تھامو علی کے ہاتھ کو جلدی فرشتگاں
عرصہ کیا تو عالم ایجاد پھر کہاں !
اب میرا ہاتھ سمجھیو حیدر کے ہاتھ کو 
بس ایک ضرب کافی ہے اس کائنات کو 

مرزا دبیر 

Sunday 19 October 2014

آ  گئی رخ پہ کدورت اصل پہچانی  گئی 
گر  گئی ساری نجابت شکل پہچانی  گئی 
جل گیا منکر علی کا نام سنتے ہی عقیل 
اور میں خوش ہوگیا کہ نسل پہچانی گئی