Tuesday 28 October 2014

تب شمر سے بولا پسر سعد ے بد اختر 
عبّاس کے تو رعب سے تھراتا ہے لشکر 
نزدیک ہے اٹھ جاییں قدم فوج کے یکسر 
اس غازی سے کر صلح تو ہے جنگ سے بہتر 

تلوار چلی گر تو خدا جانیے کیا ہو 
کچھ فکر کر ایسی کہ یہ بھائی سے جدا ہو 

اس نحس نیں کی سعد کے بیٹے سے یہ تکرار
حاکم ہے تیرے حکم سے مجھ کو نہیں انکار 
ظاہر ہے وفاداری ے عبّاس علمدار 
یہ بات نہ مانے نہ مانے گا وہ زنہار 

خون اس کا پسینے پہ شاہ دیں کے گرے گا 
ہو جایے گا ٹکڑے پر نہ بھائی سے پھرے گا 

ساونت، نور نظر شاہ نجف ہیں 
یہ جس کے طرفدار ہیں بس اس کی طرف ہیں 

یہ کہہ کے وہ مکار چلا سوۓ علمدار 
اور غیض سے یاں سرخ ہوا روۓ علمدار 
غصے سے کھڑے ہو گیے سب مو ے علمدار 
بل کھانے لگے گھسو ے خوشبو ے علمدار

ابرو پہ تو بل آگیا شمشیر کی صورت 
دیکھا طرف ے شمر لعین شیر کی صورت

شعلے کی طرح کانپ گیا  ڈر سے وہ ناری 
پیچھے بھی ہٹا اور بڑھا  بھی کئی باری 
دہشت میں یہ تقریر زبان سے ہوئی جاری 
حاکم نیں مجھے بھیجا ہے اے عاشق ے باری 

غصے کی نہ باتیں ہیں نہ لڑائی کے سخن ہیں 
سن لیجئے حضرت کی بھلائی کے سخن ہیں 

فرمایا علمدار نیں کہہ کیا ہے وہ پیغام 
پھر دست ادب جوڑ کے بولا یہ وہ خود کام 
کرتے ہیں عبث آپ لڑائی کا سر انجام 
حضرت کے تو ہے نام کی عاشق  سپاہ ے شام

مشتاق ملاقات کے سب چھوٹے بڑے ہیں 
واں ہاتھوں میں نذریں لیے سردار کھڑے ہیں 

چلے میرے ہمراہ ادھر کو تو ہے بہتر 
وہاں آپ کی خاطر ہے علمداری ے لشکر 

جاگیر بھی ہاتھ آیے گی راحت بھی ملے گی 
دولت بھی ، مدینے کی حکومت بھی ملے گی

کیوں آپ اٹھاتے ہیں ادھر پیاس کی ایذا
افسوس کے ایسا جواں فاقوں پہ فاقہ 
وہاں پانی بھی موجود ہے کھانا بھی مہیا
حاکم تمہی لشکر کے تم ہی ملک ے دریا 

زنار نہیں بغض و حسد اور کسی سے 
ہم کو عداوت ہے حسین ابن علی سے

فرزندوں کو گر آپ کے ہے تشنہ دہانی 
لے آئیے ان کو وہ پیئیں شوق سے پانی 
شبیر کی منظور نیں پیاس بجھانی
حلق ان کا ہے اور خنجر ے برراں کی روانی

زینب کی ردا چھنیں گے اور لیویں گے اسباب 
پر آپ کی زوجہ کا  بھلا دیں گے ناں آداب  

عبّاس نیں جس دم یہ سنی شمر کی تقریر 
معلوم ہوا یہ کہ کلیجے پہ لگا تیر 
سر تا پا قدم کانپ گیا عاشق ے شبیر 
فرمایا زبان بند کر او ظالم بے تیر 

میں عاشق شبیر ہوں، میں اہل وفا ہوں
سر تن سے جدا ہو پر نہ بھائی سے جدا ہوں 
اس تفرقہ سازی کا مزہ تجھ کو دکھا دوں 
ہے شرط کے شمشیر کے شعلے سے جلا دوں 

مر کر بھی شاہ دیں میں میری جان رہے گی 
بھائی پہ میری روح بھی قربان رہے گی 
روشن ہو میرا نام بجھے شمع  امامت 
بے سر ہوں وہ اور پہنوں میں سرداری کا خلعت

خلعت تیرا کیا چیز ہے او ظالم ے بے تیر 
یاں حلا فردوس ہے اور دامن شبیر 


میر انیس 

No comments:

Post a Comment