Wednesday 26 December 2012

بینظیر کہانی

آییں  یاد کریں اس عظیم خاتون لیڈر کو جو اپنے ہم  عصر بونے سیاستدانوں، خاکیوں اور ججوں  کے مقابل جرّت و بہادری کا کوہ ہمالیہ تھیں . وہ جس نیں ساری زندگی جمہوریت کی سیاست کی  اور کبھی بھی تشدد گولی اور کردارکشی کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استمال نہ کیا 
وہ جس کی کردار کشی کے لئے ریاست ے پاکستان کے  ہر ادارے نیں اپنا اپنا حصہ ادا کیا . وہ کہ جس کی جیت کو چرانے کیلئے خاکیوں نیں "اسلامی جمہوری اتحاد" نامی ٹیسٹ ٹیوب سیاسی پارٹیاں تشکیل دیں.  وہ کہ جس کو ووٹ دینے پر فتوے جاری کیے کہ جو اس کی پآرٹی کو ووٹ ڈالے گا اس کا نکاح ساقط ہو جاے گا.  وہ کہ جس کو سیلوٹ کرتے ہوۓ "غیرتمند" آرمی چیف کو کچھ کچھ ہوتا تھا . وہ کہ جس کی حکومت کو انیس ماہ میں چلتا کر دیا گیا . وہ کہ جس کے خاوند کو ١١ سال جیل میں رکھا گیا بغیر کسی جرم کے ثابت کیے تاکے اس کو  جھکنے پر مجبور کیا جاسکے . لیکن نہ تو وہ جھکی اور نہ ہے اس کا خاوند . پھر زمانے نیں یہ بھی دیکھا کہ تاریخ کی سب سے مکروہ کردار کشی کو مہم چلائی گی اس کے اور اس کے خاوند کے خلاف 
لیکن جب دوبارہ الیکشن ہوۓ عوام نیں پھر اسے حکومت دی .اب کی بار دوبارہ اس کی حکومت کو چلتا کر دیا گیا الزام ووہی پر اس بار میر جعفر اس کی خود کی پارٹی سے تھا . دوبارہ ووہی احتساب ووہی کردار کشی ووہی خاوند جیل، بچے  دربدر ایک پیشی راولپنڈی، اگلے دن لاہور ، پھر کراچی ، اگلے دن پشاور پھر دوبارہ راولپنڈی . مگر وہ پھر بھی نہ ٹوٹی . بدبختوں نیں تو یہاں تک بھی کیا کہ الیکشن کی تاریخ جان بوجھ کر اس وقت رکھی جب اس کا بچہ پیدہ ہونے کے دن قریب تھے . اس کی اپنی حکومت میں اس کے بھائی کو دن  دیہاڑے قتل کرکے الزام اس پر اور اس کے خاوند پر لگا دیا 
٢٠٠٢  میں اس کے جیتے ہوۓ الیکشن ، اس کی پآرٹی میں سے ٢٠ سے زائد ایم  این اے توڑ کر چرا لئے گیے . جب اس سے بات نہ بنی اور وہ اگلا الیکشن جیتتی نظر آی تو ٹھیک سال ٥ سال پہلے آج ہی کہ دن  راولپنڈی کے ایک جلسے میں  دن دیہاڑے  ایک خودکش حملے شہید کر دیا گیا 
پر تریخ کا جبر دیکھے اس ملک کے عوام جنھوں نیں ہر فری اور فیئر  الیکشن میں اسے ووٹ دیا تھا ، اور ہر دفع ان کا ووٹ بدبخت چوری کر لیتے تھے . ان لوگوں نیں اس کے شہید ہونے کے بعد بھی اس کی پآرٹی کو ووٹ دیا اور اقتدار میں لے آیے 
پر ان بدبخت قوتوں کا کھیل  ابھی جاری ہےآج بھی ایک طرف اس کی پآرٹی اور مخالفت میں سب پرانے بیداد اکھٹے ہیں 
کہانی ابھی جاری ہے 
بینظیر کہانی   

No comments:

Post a Comment