Sunday 30 December 2018

Darbar, Religion, Sate Secularism.




ہم کوتو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی

گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن


شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ

مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن


نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا

ہر خرقہء سالوس کے اندر ہے مہاجن


میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد

زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!


(علامہ اقبال)



جناب مسئلہ صرف درباروں کا نہیں یہ مسلئے کا جزو ہیں

اصل مسئلہ مذہب فروشی ہے 

ہر بندہ اپنے دائیرے میں مذہب فروشی کر رھا ہے 

وہ دربار کا پیر ہو

مسجد کا امام

مدرسے کا ممتہم 

مذہبی جماعت کا لیڈر 

یا تبلیغی جماعت کا مبلغ 

اور تو اور ریاست بھی مذہب بیچ رہی اور مذہب کو اپنے جغرافیائی سیاسی اور معاشی مفادات کے لیے ایک اوزار کے طور پر استعمال کر رہی ہے 


ہمارے اس ملک (برطانیہ) میں بھی کئی صدیوں تک ریاست/بادشاہ پادری ملکر مذہب فروشی کرتے رہے ہیں 

یہی وجہ ہے کہ ہر چھوٹے بڑے گاوں میں سب سے بڑی پکی عمارت کلیسا کی ہوتی تھی


جب سے ریاست نے فیصلہ کیا ہے 

کہ کارِ ریاست  میں مذہب کا عمل دخل نہیں ہوگا 

ان سب خرافات سے اس قوم کی جان چھوٹ گئی 

اور مذہب بھی بچ گیا 

ورنہ 1727 تک یہاں کے پادری اتنے طاقتور تھے کہ خواتین کو witchcraft کا الزام دھر کے زندہ جلانے کی سزائیں دیا کرتے تھے 


 

No comments:

Post a Comment