Saturday 1 November 2014

مصطفیٰ زیدی

وہ تشنہ لب جو سمندر کا دہانہ پاٹ دیں 
وہ موم جیسے دل جو تلواروں کا لوہا کاٹ دیں 
اور اس کے بعد ایسی گھٹا توپ آندھیوں کا کافلہ
تپتی ہوئی ریگ رواں جلتا ہوا دشت بلا 
خونی چٹانیں ، ناچتے شعلے ، گرجتا زلزلہ 
سفاک آنکھیں، سرخ تلواریں، کف آلودہ خلا

کالی فصلیں آتش و آہن کا منہ گھولے ہوۓ
وحشی عناصر آبنوسی برچھیاں ٹولے ہوۓ

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment