Saturday 8 November 2014

امیر خسرو


اگرم حیات بخشی و گرم هلاک خواهی

سر بندگی به حکمت بنهم که پادشاهی


چاہے حیات بخش دو اور دل چاہے تو ہلاک کر دو


تیری حکمت پہ سر تسلیم خم ہے کہ تم بادشاہ ہو



نہ شود نصب دشمن، کہ شود ہلاک تیغت


سر دوستاں سلامت، کہ تو خنجر آزمائی



کسی دشمن کا نصیب کہاں کہ تیری تلوار سے ہلاک ہو


دوستوں کے سر سلامت رہیں تو خنجر آزمائی جاری رکھ



سعدی


گفتم که روشن از قمر گفتا که رخسار منست


گفتم که شیرین از شکر گفتا که گفتار منست



میں نے کہا چاند سے زیادہ کچھ روشن ہے؟ کہا میرے رخسار


میں نے کہا شکر سے زیادہ میٹھا کچھ ہے؟کہا میری گفتار



گفتم طریق عاشقان گفتا وفاداری بود


گفتم مکن جور و جفا، گفتا کہ این کار منست



میں نے کہا عاشقوں کا طریق کیا ہے؟ کہا محبوب سے وفاداری 


میں نے کہا کہ جور و جفا نہ کیجیے، کہا یہ تومیرا کام ہے



گفتم کہ مرگِ ناگہاں، گفتا که درد هجر من


گفتم علاج زندگی ،گفتا که دیدار منست



میں نے کہا مرگ ناگہاں کیا ہے؟ کہا میرے ہجر کا درد


میں نے کہا زندگی کا علاج کیا ہے؟ کہا میرا دیدار



گفتم که حوری یا پری ، گفتا که من شاه ِ بتاں


گفتم که خسرو ناتوان گفتا پرستار منست



میں نے کہا کہ یہ حور و پری کیا ہے؟ کہا میں خوبرووں کاباد شاہ ہوں/ میرا مقام ان 


سے بلند ہے

میں نے کہا کہ خسرو تو ناتواں ہے، کہا میرا پرستار تو ہے



No comments:

Post a Comment